
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے۔ ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے معقول بنیادیں موجود ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بیان کردہ پانچ میں سے چار نسل کشی کی کاروائیاں 2023 میں حماس کے ساتھ جنگ کے آغاز کے بعد سے کی گئی ہیں۔
اس میں نسل کشی کے ارادے کے ثبوت کے طور پر اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات اور اسرائیلی افواج کے طرز عمل کا حوالہ دیا گیا ہے۔اسرائیلی جارجیت اور ظلم سے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم ستر ہزار افراداب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ بہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر کب تک معصوم جانوں کا خون سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھتا رہے گا؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ امن اور انسانیت کی بات کرنے والے دنیا کی بڑی طاقتیں، خصوصاً امریکہ اور یورپ، اس کھلی نسل کشی پر اپنی شرمناک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہی طاقتیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، آج اپنی سیاسی مفادات کی خاطر انسانی جانوں کی پامالی پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ ایک کھلا ظلم ہے۔یہ خاموشی دراصل ظلم کی تائید اور انصاف کی نفی کے مترادف ہے۔
1948 کے کنونشن میں نسل کشی کی تعریف یوں ہے کہ مکمل یا جزوی طور پر کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو تباہ کرنے کے ارادے کے طور پر کی گئی کاروائی نسل کشی کہلاتی ہے۔ اور اگر آپ غزہ کی صورتِ حال اور قتل و غارت گری کا جائزہ لے تو آپ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ غزہ میں اسرائیل نے نسل کشی کی ہے۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو پر غزہ کی جنگ کا موازنہ عمالیق کے نام سے مشہور دشمن کے خلاف یہودیوں کی لڑائی کی کہانی سے کر کے بھڑکانے کا بھی الزام ہے۔ بائبل میں خدا یہودیوں سے کہتا ہے کہ وہ تمام عمالیق مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے مال اور ان کے جانوروں کو ختم کر دیں۔
آپ سب جانتے ہیں کہ غزہ میں جوان، بچے، عورتیں اور بوڑھوں کی جس طرح سے قحط سے مررہے ہیں، اس سے انسانیت چینخے مارتے مارتے دم توڑ رہی اور آنکھیں روتے روتے سوکھ گئی ہیں۔ روزانہ کچھ غذا کو حاصل کرنے والے بچے، عورتوں، جوان اور بوڑھوں کو اسرائیلی فوج گولیوں سے بھون رہی ہے اور ہم تماشائی بنے بے بس کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا، بیچارے معصوم فلسطینی مارے بھوک کے روز ایک امید لگائے اسرائیلی اور امریکی کی خود کی بنائی امدادی کیمپ میں دھوکے سے اپنی جان دے کر شہید ہو رہے ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ گزشتہ کئی دنوں میں سو سے زیادہ بچے اور بزرگ بھوک یا غذائی قلت سے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 14000سے زیادہ بچوں کی اموات کا تحمینہ بھی بہت حقیقت پسندانہ ہے۔ وہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) نے تنبیہ کی کہ تقریباً پانچ لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں گیارہ فی صد بچے شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی بھوک سے ہلاکت اور غذائی قلت کے باعث نسل کے لیے مستقل نقصان کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کی نسل کشی کی پشت پناہی کے پیچھے امریکہ، اور مغربی ممالک کا ایک ہی مقصد ہے کہ غزہ کی آبادی صفہ ہستی سے مٹا دی جائے تاکہ اسرائیل اپنے ناپاک گریٹر اسرائیل بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ یعنی کہ ہزاروں فلسطینی مردوں، بچوں اور عورتوں پر بم گرا کر انہیں شہید کر دیا گیا اور جو بچ گئے انہیں قحط سے مار دی جائے۔ کمال تو فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک کا ہے جو تماشائی بنے فلسطینیوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں۔ اور بے حسی تو تب دیکھی گئی جب انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ پر دونوں ہاتھوں کو دولت لٹائی اور شاندار استقبال کیا۔
اسرائیل کی نسل کشی اور جاری ناکہ بندی کے دوران خوراک سمیت انسانی امداد کو جان بوجھ کر روکنے سے غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ غزہ کی پوری 2.1ملین آبادی کو خوراک کی طویل قلت کا سامنا ہے۔ تقریباً نصف ملین افراد بھوک، شدید غذائی قلت، بیماری اور موت کی تباہ کن صورتحال میں ہیں۔ ڈبلو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے بد ترین بھوک کے بحرانوں میں سے ایک ہے جو حقیقی وقت میں سامنے آتا ہے۔ تاہم ابھی قحط کا اعلان نہیں ہوا لیکن لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں۔ غزہ کی تین چوتھائی آبادی ہنگامی یا تباہ کن خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ 2مارچ 2025کو امدادی بندش شروع ہونے کے بعد سے، مبینہ طور پر روزانہ بچے غذائی قلت کے اثرات سے ہلاک ہورہے ہیں۔ اگر صورتحال اسی طرح برقرار رہتی ہے تو اگلے کئی مہینوں میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 71000بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جو کہ ایک تشویش بات ہے۔
غزہ کی صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے۔ اسرائیل اور اس کے ڈیڈی امریکہ اقوام متحدہ میں اپنی ہٹ دھرمی سے ویٹو کا استعمال کر کے اسرائیل کی غزہ ناکہ بندی کو قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔ روزانہ لوگ بھوک مری سے مر رہے ہیں جب کہ ڈبلو ایچ او اور شراکت داروں کی زندگی بچانے والی طبی سامان غزہ کے بالکل باہر بیٹھی ہے۔ وہیں اسرائیل اپنی نسل کشی کو جاری رکھتے ہوئے انسانی ہمدردی کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ جس کی پشت پناہی کرتے ہوئے امریکہ اپنی بے حسی اور دادا گری کی دھونس دکھا کر عرب ممالک سے پیسے بٹور رہا ہے اور دنیا بے بس ہوئے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
بھوک آپ کو آہستہ آہستہ کچل دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ویرانے میں اکیلے مر رہے ہوں جسے کبھی کسی پاؤں نے نہ چھوا ہو۔میں ٹھیک سے سو نہیں سکتا یا پڑھنے کے لیے کافی دیر تک بیٹھ نہیں سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں الگ ہورہا ہوں “۔ یہ الفاظ فلسطینی شاعر حسام معروف نے مئی 2025کے آخر میں اس جگہ سے لکھے تھے جہاں وہ شمالی غزہ میں پناہ لے رہے تھے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ غزہ میں ہر کوئی ایسا ہی کرتا ہے۔ پروٹین کے بغیر، کیلشیم کے بغیر، روٹی کے بغیر، ذائقہ کے بغیر کھانا۔ ایک ایسا کھانا جس سے غذائی اجزاء اور معنی چھین لیے گئے ہوں۔
تقریباً دو سالوں سے فلسطینی صحت کے حکام انسانی ہمدردی کے اداروں نے 7 اکتوبر 2023کو حماس کے حملے کے فوراًبعد اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلط کیے گئے ” مکمل محاصرے ” کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ میں ناگزیر اضافے اور قحط کے امکانات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ نومبر 2024میں اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے دلیل دی کہ اسرائیل کی فوجی مہم نسل کشی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور جان بوجھ کر موت، بھوک اور شدید چوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ اسرائیل بھوک کو جنگ کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور فلسطینی آبادی کو اجتماعی سزا دے رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت انساف میں جاری ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے گرفتاری کے وارنٹ کا ایک جواز ان کا “جنگ کے طریقہ کار کے طور پر بھوکا مرنا ” کا استعمال ہے۔
ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ نے ایک مقدمہ دائرکیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے۔ تاہم اس کیس کے فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے، جس کی ایک وجہ ممکن ہے کہ اس وقت تک نیتن یاہو گزر چکے ہوں گے۔ یعنی پورا معاملہ” ریسٹ اِن پیس” ہوجائے گا۔
نسل کشی صرف ایک قوم یا علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کی اخلاقی بنیادوں پر حملہ ہے۔ اگر آج فلسطین کے بچوں کی آواز دبا دی گئی تو کل یہ ظلم کسی اور قوم کا مقدر بھی بن سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری ضمیر کی آواز پر لبیک کہے۔ انصاف اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کو اس کے جرائم پر جواب دہ بنایا جائے اور فلسطینی عوام کو انصاف دلایا جائے۔ خاموشی اب جرم کے مترادف ہے اور اس جرم میں شریک ہونے کا مطلب ہے انسانیت سے غداری، جو کہ امریکہ، یورپ سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں کر رہی ہیں۔