You are currently viewing جسمانی اعضا کے عطیات اور ہماری سوچ

جسمانی اعضا کے عطیات اور ہماری سوچ

زندگی میں کبھی کبھی کچھ لمحے یا پل ایسے ہوتے ہیں جس پر انسان کا ایمان، یقین، سوچ اور اعتماد ایسا الجھ جا تا ہے جس سے وہ شاید اپنی انسانیت کو کھو دیتا ہے۔ لیکن جب انسان کسی موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے بنا اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے تو اس کے بعد یا تو وہ اپنے ایمان اور یقین کو داؤ پر لگا دیتا ہے یا پھر وہ دنیا سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو رب کے حوالے کر دیتا ہے۔

آج کا کالم انسان کی ذات اور اس کے مسائل سے الجھا ہوا ایک موضوع ہے جس کا حل انسان کے پاس ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی مذہبی عقائد، سماجی بندش اور خاندانی روایت کی لپیٹ اور غلط بیانی کی وجہ سے اس کا حل نہیں نکال پارہا ہے۔ حیرانی تو اس بات کی ہے انسان اپنی خود غرضی اور فرسودہ یقین کے تحت اُن دُکھ بھرے لوگوں کی بات کو نہیں سمجھ پاتا ہے جو اس بیماری سے دوچار ہیں۔  دنیا بھر میں جسمانی اعضا کو مرنے سے پہلے یا مرنے کے بعد ہزاروں لوگوں نے عطیات کے طور پر دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی جان کو بچایا جا سکتا ہے۔ جو اپنے گردے کی خرابی، کلیجہ کا کام نہ کرنا، اور کئی ایسے اعضا ہیں جن کے ناکارہ ہوجانے سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ان ہی لوگوں کے عطیہ کردہ جسمانی اعضا کو ڈاکٹر استعمال کر کے ہزاروں انسانوں کو ایک نئی زندگی فراہم کر رہے ہیں۔

لیکن اب بھی کئی ایسے لوگ ہیں جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے جنہوں نے نہ ہی تو ان باتوں کی طرف اب تک دھیان دیا ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان باتوں کی طرف مائل کیا ہے کہ کیسے ایسے لوگوں کی زندگی کو اپنے اعضا عطیات کر کے ایک نئی زندگی فراہم کی جائے۔ میں چاہوں گا کہ میری آج کی ڈائری سے ہماری قوم میں جو غلط فہمیاں ہیں اسے دور کیا جائے۔ میں یہ بھی چاہوں گا کہ اس موضوع پر علما اور مسلم لیڈر دھیان دیں تاکہ انسانیت کے ناطے اس بات کا حل نکالا جائے۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان اس نیک کام میں حصہ لیں اور اپنی انسانی دوستی کی عمدہ مثال دنیا کو پیش کریں۔

سمجھا جاتا ہے کہ شاید جسمانی اعضا کا عطیہ کرنا اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تو آئیے پہلے اسلامی شریعت کی نوعیت اور اخلاقی تعلیمات کو جانتے ہیں۔ اس سے آپ لوگوں کو میری بات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور ہم خاطر خواہ کسی نتیجے پر بھی پہنچ پائیں گے۔ شریعت کوئی کٹر قسم کا قاعدہ نہیں ہے جو انسان کی آزادی کو محدود اور سمیٹ دیتا ہے بل کہ اس میں لچک ہے جس کے ذریعہ مسائل کو آسان بنایا جا سکتا ہے اور اس کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ قرآن کے حوالے سے اللہ نے تمام باتوں کو با مقصد اور با معنی بتایا ہے جس سے ہم اور آپ انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ سید ظہیر عدید جنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام میں انسان کے اخلاقی اقدار کو بلند کرنے کا اہم پیغام دیا گیا ہے اور انسانی زندگی کے مشقت کی روک تھام کی بات کہی گئی ہے۔ شریعت کے مقاصد کے حوالے سے امام ال ستیبی اور ابن آشورہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف شریعت انسان کی خوشحالی کی رضائی کرتی ہے تو دوسری طرف انسانیت کے تحفظ کی بھی بات کرتی ہے۔ ان باتوں سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اسلامی شریعت بالآخر انسانی زندگی کی تحفظ اور اس کے مقاصد کی وکالت کرتی ہے۔

روایتی طور پر شریعت کے کئی مقاصد ہیں تاہم اس کے پانچ عام مقاصد یہ ہیں،(۱) انسانی زندگی کا تحفظ (۲) وقار (۳) مذہب کی آزادی (۴) دولت (۵) خاندان۔ اسلام اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ان باتوں کی کامیابی ہی انسان میں خوشیاں اور خوشحالی لاتا ہے۔ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ سے ہر مسلمان پیار کرتا ہے اور انسانی اعضا کی پیوند کاری کے مد مقابل لوگ حضرت محمد ﷺ کی ان حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’اگر مردے کی ہڈی کو توڑا جائے تو وہ ایساہے جیسے آپ زندہ انسان کی ہڈی توڑ رہے ہیں‘۔ (امام احمد)۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’قبر میں لیٹے ہوئے مردے کو نقصان نہ پہنچاؤ‘ (امام احمد)۔ اب ان حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے مردوں کی بے حرمتی کرنے سے روکا ہے اور انسانی وقار کا اظہار کیا ہے۔ ناکہ حضور نے جسمانی اعضا کی پیوند کاری کی مخالفت کی ہے۔ مثال کے طور پر کورنیا کی بات کی  جائے جو کہ ایک مرے ہوئے انسان کی آنکھ سے نکال کر ایک اندھے انسان کی آنکھ میں استعمال کیا جاتا ہے جس سے اس انسان کو بینائی مل جاتی ہے۔ اب آپ سوچیں کہ کیا اس بات سے ہمیں احساس نہیں ہوتا ہے ہم اس انسان کو وقار بہم پہنچا رہے ہیں؟

حضور ﷺ نے کہا ہے کہ ’اللہ نے بیماریاں پیدا کی ہیں اور علاج بھی، اس وجہ سے علاج طلب کرو‘۔ اعضا کے عطیات کے مخالفین کاایک عام اعتراض یہ ہے کہ ’لوگ اپنے جسم کے مالک نہیں ہیں اس وجہ سے یہ ان کا حق نہیں بنتا ہے کہ وہ اپنے جسم کے اعضا عطیہ کریں‘۔ میں یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ فتویٰ کن حالات اور ماحول میں دیا جانا ضروری ہے۔ (۱) وقت (۲) جگہ (۳) لوگ (۴) حالات۔ اگر دیکھا جائے تو جسمانی اعضا کے عطیات کے لئے ایک مفتی کی ضرورت ہے جو جدید صحت کی دیکھ بھال، ادویات کی جانکاری اور لوگوں کی ضرورت کو سمجھتا ہو۔ تبھی جسمانی اعضا کے عطیات پر لوگوں کی الجھن کا خاتمہ ہوگا۔

زیادہ تر اسلامی ملکوں میں (National Council of Scholars)نیشنل کونسل آف اسکالرز جو عصر حاضر کے مسائل پر اسلامی نقطہ نظر کے تحت مشورہ دیتے ہیں۔ ان ملکوں میں زیادہ تر اسکالر نے جسمانی اعضا کے عطیات کو قبول بھی کر لیا ہے۔ ان میں ال اظہر اکیڈمی آف مصر، دی جورڈن کونسل آف اسکالر، پاکستان کے مولانا محمد حسین نعیمی، ایران کی شیعہ اسکالر کونسل، اسلامی الفقہ کونسل آف جدہ، دی یوروپین کونسل فور فتویٰ اینڈ ریسرچ، یو کے شرعیہ کونسل، دی نیشنل فتویٰ کونسل آف ملیشیا، دی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نورتھ امریکہ، دی اسلامک اینڈ ریلیجیس کونسل آف سنگا پور اور فتویٰ کمیٹی آف کویت اہم ادارے ہیں۔

آئیے اب عام طور پر جسمانی اعضا کے متعلق کچھ اہم بات مختصر طور پر آپ کو بتاتے ہیں۔ بیمار لوگ جن کے جسم کے کسی حصہ کا عضو بیکار ہوجا تا ہے تو وہ جسمانی عضو یا تو مردہ یا زندہ انسانوں سے حاصل کرکے اپنی تکلیف سے نجات پاتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر دوبارہ زندگی مل جاتی ہیں۔ عام طور پر جو اعضا سب سے زیادہ عطیہ کیا جا تا ہے ان میں گردہ، دل، کلیجی، پھیپھڑا، لبلبہ اورچھوٹی آنت عام ہیں۔

بر طانیہ میں اپریل 2013 سے لے کر مارچ 2014 میں 4655 لوگوں میں جسمانی اعضا کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا اور یہ ان 2466لوگوں کی سخاوت ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر اپنے اعضا عطیہ کیے تھے۔ جبکہ 2021 میں 1276 لوگوں کے جسمانی اعضا کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی 5859 لوگ اپنے جسم کے اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے لئے مناسب ڈونر کا انتطار کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں خاص کر افریقی اور ایشیائی لوگوں کے جسموں کے اعضا کی عطیات کی خاصی کمی ہے اور اس کے لئے یہاں افریقی اور ایشیائی لوگوں سے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے خاص اپیل بھی کی جارہی ہے۔ افریقی اور ایشیائی لوگوں میں گردے کے ٹرانسپلانٹ کی کافی مانگ ہے اور جس کے لئے ہزاروں لوگوں کو اپنی جان بھی گنوانی پڑ رہی ہے۔

اکثریہ خبر سنی جاتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں لوگوں کو حقیر رقم دے کر ان کے گردوں کو نکالا جا تا ہے۔ یہ لوگ معاشی طور پر بدحال ہوتے ہیں اور انہیں پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی بھی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ بہت سارے ڈاکٹر مریضوں کے کسی اور آپریشن کے دوران گردوں کو چوری چھپے نکال کر اس سے پیسہ کماتے ہیں۔

جسمانی اعضا عطیات کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلے وہ لوگ ہیں جن کی موت شدید سرکے چوٹ، نکسیر یا اسٹروک سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی موت ہسپتال میں ہو جاتی ہے اور آ خری وہ لوگ ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو اپنے جسمانی اعضا کو عطیات کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ اپنے گردے عطیہ کرتے ہیں۔

 آج کا کالم وقت کے لحاظ سے ایک اہم کالم ہے۔ میں نے اس میں پوری کوشش کی ہے کہ جسمانی اعضا کے عطیات اور ٹرانسپلانٹ کا جو مسئلہ آئے دن لوگ جھیل رہے ہیں، اس سے ہم سب آگاہ ہوں تو وہیں ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ کا اسلام  کے اندر بھی کوئی حل نکلے۔ یوں تو اس مسئلے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ فوری طور پر مجھے نظر نہیں آرہا ہے تاہم یورپ، امریکہ اور کئی اسلامی ملکوں میں اعضا کے عطیات کی حوصلہ افزائی سے لوگوں میں اس کے متعلق جانکاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بل کہ ہزاروں انسانی جانوں کو بھی بچایا جارہا ہے۔

میں بذاتِ خود اس مسئلے کے حل کے تنیجے پر نہیں پہنچ پا رہا ہوں کیونکہ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا میں جسمانی اعضا کی عطیہ مہم میں شامل ہوجاؤں یا اس سلسلے میں مزید غور و فکر کروں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جسمانی اعضا کے عطیات سے جس طرح لوگوں کی جان بچائی جارہی ہے، اس نے مجھے اس بات پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس مسئلے پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہئے۔ اور لو گوں میں جسمانی اعضا کے عطیات کے متعلق معلومات میں اضافہ بڑھانا چاہئے۔

Leave a Reply