غزہ میں جوان، بچے، عورتیں اور بوڑھوں کی جس طرح سے قحط سے ہلاک ہورہے ہیں، اس سے انسانیت دم توڑ رہی ہے اور آنکھیں روتے روتے سوکھ گئی ہیں۔ روزانہ کچھ غذا حاصل کرنے والے بچے، عورتوں، جوان اور بوڑھوں کو اسرائیلی فوج گولیوں سے بھون رہی ہے۔
لیکن مرتا کیا نہ کرتا، بیچارے معصوم فلسطینی مارے بھوک کے روز ایک امید لگائے اسرائیلی اور امریکی کی خود کی بنائی امدادی تنظیم میں دھوکے سے شہید ہو رہے ہیں۔ فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ گزشتہ کئی دنوں میں سو سے زیادہ بچے اور بزرگ بھوک یا غذائی قلت سے جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 14000سے زیادہ بچوں کی اموات کا تحمینہ بھی بہت حقیقت پسندانہ ہے۔وہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) نے تنبیہ کی کہ تقریباً پانچ لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس میں گیارہ فی صد بچے شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی بھوک سے ہلاکت اور غذائی قلت کے باعث نسل کے لیے مستقل نقصان کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اسرائیل کی نسل کشی کی پشت پناہی کے پیچھے امریکہ، اور مغربی ممالک کا ایک ہی مقصد ہے کہ غزہ کی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیاجائے تاکہ اسرائیل اپنا ناپاک گریٹر اسرائیل بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ ہزاروں فلسطینی مردوں، بچوں اور عورتوں پر بم گرا کر انہیں شہید کر دیا گیا اور جو بچ گئے انہیں قحط سے مارا جارہا ہے۔کمال تو فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک کا ہے جو تماشائی بنے فلسطینیوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں۔ بے حسی تو تب دیکھی گئی جب انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ کے دوران دونوں ہاتھوں سے دولت لٹائی۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل دنیا بھر میں قحط ہوئے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ جیسے خانہ جنگی، غذا کی قلت اور معاشی ناکہ بندی وغیرہ۔ افریقہ کا وہ واقعہ تو یاد ہوگا جب ایک فوٹو گرافر نے اپنی تصویر کے ذریعہ دنیا کوایک کمزور بھوک سے مرے بچے کے پاس گدھوں کا جم غفیر دیکھا تھا۔لیکن دنیا کی طاقتور مغربی ممالک تو شاید قحط کو اپنا ہتھیار بنا کر اب بھی لاکھوں لوگوں کو غذا کے بغیر مارے جارہے ہیں۔ جس میں غزہ ایک زندہ مثال ہے۔
شاید ہماری نئی نسل اس بات سے ناواقف ہو اور ہو بھی کیوں نہ جب ہمیں ہر ایسے واقعات کو یاد کرنے کی بجائے، ہمیں ایسی باتوں پر خاموشی برتنے کی نصیحت دی جاتی ہے تو ہماری نسلیں تو اس سے بے خبر ہی رہیں گی۔ قحط زدہ بنگال کی کہانی ایک دل دہلا دینے والا اور تاریخی حقیقت پر مبنی بات ہے جو 1943میں برطانوی ہندوستان کے بنگال میں آنے والے قحط سے جڑی ہے۔اس قحط نے لاکھوں لوگوں کی جانیں لے لیں اور انسانی تاریخ کے سیاہ ابواب میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ بنگال قحط لاکھوں انجان انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے جنہیں 1943کے بنگال کے قحط میں بھوک، بیماری اور بد انتظامی نے نگل لیا۔ اس قحط کی ایک بڑی وجہ برطانوی نوآبادیاتی پالیسیز تھیں۔ جن میں جنگِ عظیم دوم کے دوران خوراک کو فوجی ضروریات کے لیے محفوظ رکھنا شامل تھا۔ حتیٰ کہ مقامی آبادی کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
مؤرخین کے مطابق اس قحط میں اندازاً 30لاکھ سے زائد انسان ہلاک ہوئے۔ برٹش وزیراعظم ونسٹن چرچل اس کے ذمہ دار تھے جن کے حکم پر برٹش راج نے ہندوستانیوں کو قحط سے مار دیا۔ونسٹن چرچل اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم کی بے حسی بھی اس المیے میں مرکزی کردار رکھتی ہے۔ تاریخ کے مطابق جب چرچل سے قحط پر توجہ دینے کو کہا گیا تو اس نے کہا: اگر ہندوستانی بھوک سے مر رہے ہیں، تو یہ اُن کی اپنی غلطی ہے کہ وہ خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔ یہ الفاظ صرف نسل پرستی کا مظہر نہیں تھے، بلکہ لاکھوں انسانوں کی موت پر دستخط بھی تھے۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔
اسرائیل کی نسل کشی اور جاری ناکہ بندی کے دوران خوراک سمیت انسانی امداد کو جان بوجھ کر روکنے سے غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔غزہ کی پوری 2.1ملین آبادی طویل عرصے سے خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ تقریباً نصف ملین افراد بھوک، شدید غذائی قلت، بیماری اور موت کی تباہ کن صورتحال میں ہیں۔ ڈبلو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے بد ترین بھوک کے بحرانوں میں سے ایک ہے۔تاہم ابھی قحط کا اعلان نہیں ہوا لیکن لوگ اب بھوک سے مر رہے ہیں۔ غزہ کی تین چوتھائی آبادی ہنگامی یا تباہ کن خوراک کی کمی کا شکار ہے۔2مارچ 2025کو امدادی بندش شروع ہونے کے بعد سے، مبینہ طور پر روزانہ بچے غذائی قلت کے اثرات سے ہلاک ہورہے ہیں۔ اگر صورتحال برقرار رہتی ہے تو اگلے کئی مہینوں میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 71000بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جو کہ ایک تشویش بات ہے۔
غزہ کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ اقوام متحدہ میں اپنی ہٹ دھرمی سے ویٹو کا استعمال کر کے اسرائیل کی غزہ ناکہ بندی کو قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔ روزانہ لوگ قحط سے مر رہے ہیں جب کہ ڈبلو ایچ او اور شراکت داروں کی زندگی بچانے والا طبی سامان اور خوراک غزہ کے بالکل باہر موجود ہے۔وہیں اسرائیل اپنی نسل کشی کو جاری رکھتے ہوئے انسانیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ جس کی پشت پناہی کرتے ہوئے امریکہ اپنی بے حسی اور دادا گری کی دھونس دکھا کر عرب ممالک سے پیسے بٹور رہا ہے اور دنیا بے بس تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
“بھوک آپ کو آہستہ آہستہ کچل دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ویرانے میں اکیلے مر رہے ہوں جسے کبھی کسی پاؤں نے نہ چھوا ہو۔میں ٹھیک سے سو نہیں سکتا یا پڑھنے کے لیے کافی دیر تک بیٹھ نہیں سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں الگ ہورہا ہوں “۔ یہ الفاظ فلسطینی شاعر حسام معروف نے مئی 2025کے آخر میں اس جگہ سے لکھے تھے جہاں وہ شمالی غزہ میں پناہ لے رہے تھے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ غزہ میں ہر کوئی ایسا ہی کرتا ہے۔ پروٹین کے بغیر، کیلشیم کے بغیر، روٹی کے بغیر، ذائقہ کے بغیر کھانا۔ ایک ایسا کھانا جس سے غذائی اجزا اور معنی چھین لیے گئے ہوں۔
تقریباً دو سالوں سے فلسطینی صحت کے حکام انسانی ہمدردی کے اداروں نے 7اکتوبر 2023کو حماس کے حملے کے فوراًبعد اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلط کیے گئے” مکمل محاصرے “کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ میں ناگزیر اضافے اور قحط کے امکانات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ نومبر 2024میں اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے دلیل دی کہ اسرائیل کی فوجی مہم نسل کشی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور جان بوجھ کر موت، بھوک اور شدید چوٹ کا باعث بن رہی ہے۔ اسرائیل بھوک کو جنگ کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور فلسطینی آبادی کو اجتماعی سزا دے رہی ہے۔جنوبی افریقہ کا اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں جاری ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے گرفتاری کے وارنٹ کا ایک جواز ان کا جنگ کے طریقہ کار کے طور پر بھوک کا استعمال کا استعمال ہے۔
اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر ماہرین جیسے ماہرین تعلیم اور وکلاء کے مطابق اسرائیل غزہ جنگ کے ایک حصے کے طور پر غزہ کی پٹی پر جاری حملے اور بمباری کے دوران غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا ارتکاب کر رہاہے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں پر حملے اور جبری نقل مکانی مختلف مبصرین، بشمول اقوام متحدہ کے ماہرین، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیس اور ہیو من رائٹس واچ نے سنئیر اسرائیلی حکام کے بیانات کا حوالہ دیا ہے جو غزہ کی آبادی کو مکمل یا جزوی طور پر” تباہ کرنے “کے ارادے کی نشاندہی کر سکتے ہیں، یہ قانونی حد کو پورا کرنے کے لیے ضروری شرط ہے۔
انسانی تاریخ میں کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف جسموں کو مٹاتے ہیں بلکہ ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ غزہ کا قحط ایسا ہی ایک المناک باب ہے، جس میں روزانہ لوگ بھوک سے تڑپ کر مر رہے ہیں اور اُن کی آہیں، اُن کی چیخیں اور اُن کی خاموش قبریں سوال بن کر دنیا کے سامنے کھڑی ہیں۔غزہ کا قحط ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جنگیں صرف بمباری اور بندوقوں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ کبھی کبھی ایک مٹھی چاول بھی کسی کے لیے جنگ بن جاتا ہے۔ غزہ کاسانحہ ہمیں نو آبادیاتی ظلم، معاشرتی نا انصافی اور انسانی بے حسی کے بد ترین نتائج دکھاتا ہے جو کہ نہایت افسوس ناک بات ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ:
دھول میں لپٹی ہوئی شکل نظر آئی ہے
آج پھر فاقہ ہوا ہے یہ خبر آئی ہے