زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف دل کوچھو لیتے ہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے یادوں میں امر ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر فیض جبار کی شادی کی تقریب بھی انہی لمحات میں سے ایک تھی، جو کیمرج سنٹرل مسجد میں منعقد ہوئی۔
اس روز کی روحانیت، خوشی اور اپنائیت نے نے ایک دیر پا نقش چھوڑا۔میرے رفیق اور ہندوستانی ریاست جھاڑکھنڈ سے تعلق رکھنے والے شاہد جبار بھائی جوپیشے سے برطانوی حکومت کے ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں اکاونٹنٹ ہیں اور پچھلے چالیس برس سے لندن کے “بروملی” علاقے میں مقیم ہیں۔ انہوں نے سنیچر 5جولائی کو اپنے ہونہار صاحبزادے ڈاکٹر فیض جبار کے نکاح میں شرکت کی دعوت دی اور مجھ سے ایک سہرا پیش کرنے کی بھی گزارش کی۔
فیض کو دولہا کے روپ میں دیکھنا ایک جذباتی لمحہ تھا۔ وہ جس اعتماد، سکون اور خوشی کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ گویا ایک نئی زندگی کے استقبال کا عکاس تھا۔ جیسے ہی مسجد کے صحن میں قدم رکھا، ایک سکون اور روحانی بھری ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔کیمبرج سنٹرل مسجد اپنی خوبصورتی اور روحانی ماحول کے لیے مشہور ہے اور اس دن تو جیسے وہ اور بھی روشن ہو گئی تھی۔نکاح کی رسم سے قبل ہر چہرہ مسکراہٹوں سے جگمگا رہا تھا۔ عزیز و اقارب، دوست احباب اور مسجد کا نورانی ماحول، سب مل کر ایک محبت بھری فضا بُن رہے تھے۔ نکاح برطانیہ کی معروف کیمبرج سنٹرل مسجد کے امام صاحب نے پڑھایا۔خطبہ نکاح جس میں محبت، رحمت اور میاں بیوی کے درمیان تعلق کی بنیادوں پر روشنی ڈالی گئی۔ دل ہی دل میں دعائیں نکلتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اور ان کے رشتے کو عمر بھر محبت سے بھر دے جو دل کو چھو گیا۔
نکاح کے بعد شاہد بھائی نے ہمارا تعارف مہمانوں سے کرایا اور ہم سے” سہرا “سنانے کی درخواست کی۔مہمانوں نے سہرا سنا، جسے سن کر نئی اور پرانی نسل کے لوگ خوب محظوظ ہوئے۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں ایک چمک، جیسے اردو کی مٹھاس دلوں کو چھو گئی ہو۔ بزرگوں کو اپنے بیتے دن یاد آگئے، جبکہ نوجوانوں نے پہلی بار اردو کے اس خوبصورت رنگ کو دل سے محسوس کیا۔ اس لمحے یوں لگا جیسے زبان کا رشتہ نسلوں کو جوڑ رہا ہواور اور ہر دل بے اختیار اس کی شیرنی کے آگے جھک گیا ہو اور اردو کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہو۔اس وقت مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں، بلکہ ایک احساس ہے جو دلوں کو جوڑتی ہے، یادوں کو جگاتی ہے اور ثقافت کا آئینہ بن کر سب پر چھا جاتی ہے۔
برطانیہ کے تاریخی شہر کیمبرج جسے یونیورسٹیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،یہاں 5 دسمبر 2019 کو برطانیہ اور یورپ کی پہلی ’ایکو فرینڈلی‘ یعنی ماحول دوست مسجد تعمیر کی گئی،جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ آتے ہیں۔23ملین برٹش پاؤنڈ کی لاگت سے بنائی جانے والی کیمبرج کی سینٹرل مسجد کو بارہ سال میں مکمل کیا گیا۔ اس مسجد کے تعمیر کرنے والے آرکیٹیکٹ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی یہ مسجد اکیسویں صدی میں ’اسلام کا ثقافتی‘ پل ثابت ہوگی۔لگ بھگ 6000کیمبرج کے مسلمان جو بمشکل رہائشی شہر میں بنائی گئی پرائیوٹ رہائش گاہوں، چھوٹی چھوٹی مساجد اور گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے اسلامک سینٹروں میں نماز ادا کرتے تھے اورجس سے گاڑی پارکنگ کی سہولیات سے لے کر دیگر کئی ایسی باتیں تھیں جس سے نمازیوں کو کافی دشواریوں کا سامنا اٹھانا پڑ رہا تھا۔ اس لیے کیمبرج شہر میں ایک بڑی مسجد کی اشد ضرورت تھی۔
تاہم مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے کیمبرج کے مسلمانوں کو ایک لمبا انتظار کرنا پڑا تھا اور کئی مسائل سے دوچار بھی ہونا پڑا تھا۔ اتنی بڑی مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین کا حصول ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اس کے بعد اس مسجد کی تعمیر کے لیے ایک خطیر رقم کی بھی ضرورت تھی۔ لیکن سب سے بڑی رکاوٹ شہر کے بیچوں بیچ اتنی بڑی مسجد تعمیر کی مخالفت تھی۔ ویسے برطانیہ میں گھر کی تعمیر ہو یا مسجد کی تعمیر، مخالفت ہونا ایک لازمی بات ہے۔ویسے بھی انگریزوں میں شکایت کرنے کی بات بہت عام پائی جاتی ہے۔ برطانیہ میں دفتر سے لے کر تمام شعبوں میں شکایت کرنا اور اس پر عمل کرنا بہت اہم اور ضروری سمجھا جاتا ہے۔2011میں چند نا معلوم لوگوں نے جو مسجد کے قریب ہی رہائش پزیر ہیں انہوں نے پمفلٹ تقسیم کیے جس میں مسجد کی تعمیر کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔ اس میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ مسجد کی تعمیر سے لوگوں کا ہجوم ہوگا اور ان کا سکون چھِن جائے گا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو اس بات کی بھی تشویش تھی کہ مسجد کافی اونچی تعمیر ہو گی۔قانون کے مطابق کیمبرج سٹی کونسل نے تمام لوگوں کی بات سنی۔ سٹی کونسل کے مطابق مسجد کی مخالفت میں 50شکایات موصول ہوئیں جب کہ اس کی حمایت میں 200خط موصول ہوئے۔آخر کار کیمبرج سٹی کونسل نے مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جب کیمبرج سنٹرل مسجد کا ڈیزائن پیش کیا گیا تو ٹَرسٹِیز نے اس پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس کا ڈیزائن مسجد کی طرح نہیں ہے۔ لیکن مسجد کے ٹرسٹ کے چئیر مین اپنے عزم پر اڑے رہے اور انہوں نے ڈیزائن میں کوئی تبدیلی سے انکار کر دیا۔کیمبرج مسجد کی اپنی نوعیت کی اس خاص مسجد بنانے والے آرکیٹیکٹس ایوارڈ یافتہ ڈیوڈ مارکس اور ان کی پارٹنر جولیا بارفیلڈ ہیں۔ بد قسمتی سے مارکس اپنے اس شاہکار کو تکمیل کے بعد دیکھنے سے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔اب کیمبرج سینٹرل مسجد کو یورپ کی سب سے خوبصورت مساجد میں سے ایک کہا جا رہا ہے اور جویونیورسٹیوں کے تاریخی شہر کیمبرج کے شایانِ شان ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد کیمبرج شہر کے لیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔کیمبرج سینٹرل مسجد کی تعمیر کے روح رواں، ماضی کے عظیم و معروف گلوکار ’کیٹ اسٹیونز‘ہیں۔ جنہوں نے کئی سال قبل اسلام قبول کرکے یوسف اسلام کہلائے اور کیمبرج یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اور معروف اسکالر ڈاکٹر ٹمِ ونٹر ہیں۔ یوسف اسلام نے مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ اکھٹا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ ترکی کے صدر طیب اردگان سے بھی ملے تھے۔
ڈاکٹر ٹِم ونٹر کا کہنا ہے کہ کیمبرج سنٹرل مسجد سب کے لیے ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام قدرتی ماحول کی تحریم اور چیزوں کے ضیاع اور اسراف سے منع کرتا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں ان باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔مثلاً مسجد کے باہر ایک خوبصورت باغ بنایا گیا ہے جس میں کوئی بھی وقت گزار سکتا ہے۔ اس باغ کو مسجد میں وضو کے لیے استعمال ہونے والے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بارش کے پانی کو بھی دوبارہ استعمال کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس کی چھت یوں تعمیر کی گئی ہے کہ پورے سال روشنی اندر آتی رہے تاکہ روشنی کے لیے بجلی کا کم استعمال ہو۔ سوئیزر لینڈ سے لائی گئی لکڑی سے مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ مسجد میں لکڑی کے ستون درخت کی طرح بنائے گئے ہیں جو اوپر جاکر چھت کے ساتھ جڑتے ہیں جو ایک’کینوپی‘ سی بن جاتی ہے۔ جو کہ انسان کے قدرتی ماحول کے ساتھ جڑنے کی تشبیہہ بھی لگتی ہے۔
اس مسجد میں بیک وقت 1000نمازی نماز ادا کر سکیں گے۔ اس کے زیر زمین کار پارک میں 82گاڑیاں اور 300سائیکل کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔مسجد میں روایتی گنبد تو ہیں لیکن کوئی مینار نہیں بنائے گئے ہیں۔ قریب رہنے والے لوگوں کا خیال رکھ کرمسجد کے باہر اذان اور کسی قسم کے خطبے کی آواز نہیں جاتی۔ مسجد میں جو اینٹیں لگائی گئی ہیں وہ کیمبرج جیسے تاریخی شہر کی عمارتوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اس میں خطاطی کا کام بھی ترکی کے ماہر خطاط سے کرایا گیا ہے۔
دنیا جس تیزی سے بدلتی اور بگڑتی آب و ہو اور ماحول سے متاثر ہو رہی ہے اس لحاظ سے کیمبرج سینٹرل مسجد کا تعمیر ہوناایک اہم قدم مانا جائے گا۔ میں کیمبرج کے مسلمانوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہیں اللہ نے یورپ کا پہلا ایکو فرینڈلی، یعنی ماحول دوست مسجدنصیب فرمایا۔ جس کی آج اہم ضرورت ہے۔