You are currently viewing !کس کو سناؤں حال اردو زبان کا

!کس کو سناؤں حال اردو زبان کا

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم کس بے بسی میں پھنس کر ایسی بات کہنے جارہے ہیں۔ دراصل ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میری لوگوں سے اردو زبان و ادب پر تبادلہ خیال ہوتا ہے تو لوگوں میں کافی مایوس ہوتا ہوں۔توسوچا کیوں نہ آج ہم اردو زبان و ادب کے حوالے سے اپنا موقف پیش کریں۔

تاہم مجھے ناممکن لگتا ہے کہ آج ہم پوری بات اس مختصر کالم میں مکمل کر پائیں گے۔ ہاں زندگی سلامت رہی تو ایسے مضامین لکھتا رہوں گا تاکہ قاری کی بے بسی اور مایوسی کا کوئی حل نکلے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جہاں روزانہ ایسی ایسی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں  جن سے کبھی کبھی تو علم میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان خبروں کو سن کر یا ویڈیو دیکھ کر ذہن الجھ جاتا ہے۔مثلاً روزانہ نئے نئے شاعروں اور دانشوروں سے تعارف ہوتا ہے اور ایسی ایسی شاعری اور قول سنتا ہوں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم تو کسی ایسے جزیرے میں رہ رہے ہیں جہاں اب تک ان شعرا اور دانشوروں کوجان ہی نہیں پایا۔

ایسا ہی حال ہی میں ایک صاحب کا پوسٹ نظر سے گزرا جو یوں لکھا تھا،  ’فلاں صاحب (جن کا نام میں نے پہلی بار سنا، یہ میری کم علمی کا ثبوت ہے) کتاب کے مصنف کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے رہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا انتخاب عمل میں لایا جائے‘۔یہ اہم بات ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر نے ان کی کتاب کے اجرا کے موقع پر اپنی تقریر میں کہی۔جب لوگوں نے مجھے بتایا تو میرا بھی  سر جھک گیا۔تاہم میرا ہاتھ پروفیسر صاحب کی بات پر نہیں بندھا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان میں بے شمار الفاظ ایسے ہیں جن کے استعمال کے بغیر ہماری تحریر معتبر نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے ہم الفاظ کے سامنے ہاتھ باندھے رہتے ہیں کہ ان الفاظ سے باہمی احترام رشتوں کو خوبصورت بناتا ہے اور قلم اور الفاظ کے اسی رشتے سے ہماری تحریر خوبصورت اور کارگر ہوجاتی ہے۔

اب اسے ہماری بدقسمتی کہیے کہ پچھلے بارہ برس سے میں نے شاعری  شروع کی اور اب بھی سر تب جھک جاتا ہے جب کوئی پوچھتا ہے کہ کیا آپ نے دبئی میں مشاعرہ پڑھا ہے۔ اس سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ جس طرح ایک مسلمان کے لیے حج اور عمرہ کرنے کے لیے مکہ جانا ضروری ہے،  اسی طرح آج کل ایک شاعر کا سرٹیفیکٹ لینے کے لیے دبئی کا چکر لگانا بھی ضروری ہے۔بس مسئلہ یہ ہے کہ مجھے خوشامد یا اداکاری نہیں آتی اور تمام کوششوں کے باوجودمیں اب تک ناکارہ ہوں۔ویسے اپنی شاعری پر تو یقین ہے کہ ان شا اللہ ایک دن ہم بھی دبئی جائیں گے۔ تاہم دبئی میں کئی بار گھوم چکا ہوں اور وہاں مشاعرے کے ساتھ ساتھ ایسی ایسی آرائش میسر ہے کہ اللہ اکبر۔مجھے تو لندن کی مغربی اور آزادانہ زندگی،دبئی کے آزادانہ،چمک دھمک اور عیاشی کے سامنے پھیکی لگتی ہے۔

اردو زبان ایک خوبصورت، شیریں اور تہذیب یافتہ زبان ہے جو صدیوں سے بر صغیر کے لوگوں کے دلوں میں جوڑتی اور محبت بکھیرتی آئی ہے۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت، ہندی اور مقامی زبانوں کے امتزاج سے بنی، جس نے اسے ایک عالمگیر اور ہمہ گیر زبان بنا دیا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دنیا بھر میں اردو زبان کے فروغ میں بر صغیر کے ان دانشور، شعرا اور ادباکا نمایاں رول رہا ہے۔جنہوں نے اپنے ساتھ زبان اور ثقافت کو بھی دیگر ممالک میں تعارف کرایا بلکہ اس کی ترقی و تریج میں نمایاں رول ادا کیا۔

اردو ادب نے نہ صرف زبان کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا بلکہ تہذیب، اخلاق اور فکری ارتقا میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تاہم آج اردو زبان و ادب کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے جنہیں نظر انداز کرنا اردو کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔مثلاً اردو زبان کی تعلیمی اداروں میں نظر اندازی، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو وہ اہمیت نہیں دی جارہی جو ایک قومی زبان کے طور پر اسے ملنی چاہیے۔ زیادہ تر ادارے انگریزی یا مقامی زبان کو فو قیت دیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں اردو کی تدریس کا معیار کمزور ہے، جبکہ شہری علاقوں میں انگریزی یا مقامی زبان کا رحجان زیادہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو کمزور ہو رہی ہے۔ تاہم ہندوستان کے دیہی علاقوں میں مدرسوں نے اردو کے فروغ کے لیے اہم رول نبھایا ہے جو بدقسمتی سے سیاسی، مذہبی اور امتیازی سلوک کا شکار ہورہی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا میں میڈیا اور ٹیکنالوجی میں اردو کی موجودگی کم ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ تر ڈیجیٹل مواد انگریزی میں ہوتا ہے، جس سے نئی نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر آپ سوشل میڈیا پر اردو شاعری کی پوسٹ دیکھیں تو زیادہ تر پوسٹ آپ کو یا تو ہندی اور رومن میں لکھے ہوتے ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔غیر معیاری زبان کا فروغ ایک تشویش کی بات ہے۔ میڈیا، خاص طور پر ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں غیر معیاری اردو اور بول چال کا استعمال بڑھ رہا ہے، جو زبان کی اصل ساخت کو متاثر کر رہا ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ آج کل لوگ خوبصورت کو کھوبسورت کہتے ہیں جو کہ کانوں کا کافی برا لگتا ہے۔

ایک اور مسئلہ ہم نے یہ پایا ہے کہ اردو ادب میں مطالعے کا فقدان ہے۔ نئی نسل میں اردو ادب پڑھنے کا رحجان کم ہوگیا ہے۔ کلاسیکی ادب کو بوجھل سمجھا جاتا ہے اور جدید ادب کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اس کی مثال ہمیں یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ آج کل ہر کوئی ویڈیو دیکھ رہے ہیں جہاں لوگ غالب، میر اور اقبال کی شاعری دھڑلے اپنے نام سے سے پڑھ کر راتوں رات مشہور ہورہے ہیں۔ادبی اداروں کی کمزوری اور نااہلی سے اردو کے فروغ کے لیے قائم ادارے یا تو غیر فعال ہیں یا وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ ادیبوں کو سرکاری سطح پر وہ پزیرائی حاصل نہیں ہورہی جس کے وہ مستحق ہیں۔ادب برائے ادب کی کی جگہ ادب برائے تجارت بعض مصنفین اور پبلیشرز صرف تجارتی مقاصد کے لیے لکھتے ہیں، جس سے ادب کا معیار متاثر ہوتا ہے۔

یہ باتیں تو اردو زبان و ادب کے مسائل اور اس مشکلات کی ہوئیں تو اس کا کیا حل نکالا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نصاب میں اردو کو لازمی مقام دینا اردو کو تمام تعلیمی اداروں میں لازمی اور موئثر طریقے سے پڑھایا جائے۔ نصاب کو دلچسپ اور عصر حاضر کے مطابق بنایا جائے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اردو کو فروغ دینا اردو ویب سائٹس، بلاگز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنائے جائیں تاکہ نئی نسل اردو میں دلچسپی لے۔ادبی میلوں اور مقابلوں کا انعقاد ہونا چاہیے لیکن ریختہ اور دبئی کے ایونٹ آرگنائزرزجیسا نہیں جو تجارت کے طور پر اردو کا استعمال کرتے ہیں۔اسکولوں، کالجوں اور یونیور سٹیوں میں اردو کے ادبی مقابلے، مشارے اور ڈرامے منعقد کیے جائیں تاکہ طلبہ میں دلچسپی بڑھے۔

یہاں میں ہندوستان کے بچپن گروپ اور اس کے بانی سراج عظیم جن کا تعلق دلی سے ہے، کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جو ادبِ اطفال میں نمایاں رول نبھا رہے ہیں۔ اردو اکادمیوں اور ادبی تنظیموں کو حکومتی امداد مزید دی جائے تاکہ وہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بہتر کام کرسکیں۔اس سلسلے میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے سرپرست جناب ندیم الحق کی میں سراہنا کروں گا جن کی سر پرستی میں اکاڈمی کافی کام کر رہی ہے۔اردو ادب کو عصری موضوعات سے جوڑنا۔ادیبوں کو چاہیے کہ وہ جدید مسائل پر لکھیں تاکہ نئی نسل اردو ادب کو اپنے حالات سے مربوط محسوس کرے۔

آج ہم نے اردو زبان و ادب پر مختصر طور کالم لکھ کر ان مسائل کو اجاگر کیا ہے جو عام لوگوں کے مسائل ہیں۔ اردو زبان و ادب ہمارا ثقافتی ورثہ ہے، جس کی حفاظت اور فروغ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے آج اردو کو سنبھالا نہ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو کو صرف زبان نہ سمجھیں بلکہ اپنی پہچان کا حصہ جان کر اسے فروغ دیں۔ یہی اردو کے مستقبل کی ضمانت ہے۔تو آئیے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے طور پر اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ اردو زندہ باد، اردو پایئندہ باد۔

Leave a Reply