You are currently viewing !شام ہوا آزاد اوربشارالاسد ہوئے فرار

!شام ہوا آزاد اوربشارالاسد ہوئے فرار

یوں تو شام کی خبر مسلسل ہی سرخیوں میں رہتی کہ وہاں کبھی اسد حکومت نے باغیوں کو شکست دے دی تو کبھی باغی گروپ نے اسد حکومت کی فوج کو مار بھگایا۔لیکن کئی دنوں سے شام کے متعلق اسد حکومت کی بے بسی اور اسد کی گم شدہ ہونے کی خبروں نے لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے لگی۔

ان باتوں سے پرے یہ خبریں نمایاں ہونے لگیں کہ باغی جماعتوں نے شام کے کئی علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور آخر کار چند ہی دنوں کے بعد اتوار 8دسمبر کی صبح سے سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بشارالاسد کی ملک سے فرار ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تاہم اتوار کو جب روس نے اعلان کیا کہ اسد شام چھوڑ کر روس میں انسانی حقوق کی بنا پر سکونت لے چکے ہیں تو پوری دنیا کی خبروں میں اسد حکومت کے خاتمے کا اعلان ہونے لگا۔کچھ پل کے لیے حیرانی بھی ہوئی اور ذہن اس بات میں الجھ گیا کہ اب شام میں کیا ہوگا۔ دیکھا جائے تو پچھلے کئی برسوں سے برطانیہ اور امریکہ بشارالاسد کو شام سے ہٹانے میں کوشاں ہیں اور جس کے لیے انہوں نے بالواسطہ طور پر ہتھیار سے لے کر جہادی لوگوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔جس سے شام اکیلا لڑتے ہوئے تھکا جا رہا تھا اور اس نے بحالتِ مجبوری روس اور ایران کا ہاتھ تھام لیا۔

شام میں حالیہ دنوں میں بشارالاسد کی حکومت کو مختلف باغی گروپوں سے شدید مزاحمت کا سامناتھا۔ خاص طور پر ادلب اور حلب جیسے علاقوں میں باغی اتحاد بشمول حیات تحریر الشام اور ترک حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی نے کئی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جس سے حکومت کے کنٹرول میں کمی آئی تھی۔ اس بغاوت میں ترکی، اسرائیل اور امریکہ کے مبینہ کردار پر بھی بحث ہورہی ہے۔ جبکہ روس اور ایران بدستور اسد حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔پچھلے کئی برسوں سے روس نے شام کی بھرپور مدد کی اور کئی علاقوں میں جہاں باغی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے انہیں بری طرح شکست دے کر ہزاروں شامی باشندوں کو مار ڈالا اور بہتوں نے فرار ہو کرترکی اور مغربی ممالک میں پناہ لے لی۔تاہم شام کی حالت بجائے بہتر ہونے کی مزید بد تر ہونے لگی۔اس کی ایک وجہ روس اور یوکرین کی جنگ اور ایران کا شام میں کھلے عام طور پر سر گرمی تھی جس سے اسرائیل سمیت امریکہ اور برطانیہ کافی ناراض تھے۔یہی وجہ تھی کہ اسرائیل شام میں ایرانی سفارتخانے کو بار بار نشانہ بنا رہا تھا اور کئی مواقع پر ایرانی جنرل سمیت کئی اہم افسران کو مارڈالا۔جس سے اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ شام کتنا کمزور ہوچکا ہے۔

روس بھی یوکرین کی جنگ کی وجہ سے شام کو اس طور پر مدد نہیں کر پارہا تھا جیسا اس نے شروع میں کی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ شام دھیرے دھیرے تنہا اور کمزور پڑنے لگا اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام کے باغی گروپ نے فائدہ اٹھاتے ہوئے دھیرے دھیرے ایک بار پھر آسانی سے شام کے ان علاقوں پر اپنی پکڑ مضبوط کر لی جہاں اس سے قبل انہیں شکست کھانی پڑی تھی۔باغی گروپ کی آسانی سے شام کے علاقوں پر قبضے سے شاید باغی گروپ بھی حیران و پریشان تھے یا انہیں اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ اب اسد بالکل تنہا اور کمزور ہوچکے ہیں۔ تبھی تو چند ہی دنوں میں باغی گروپ شام کی راجدھانی دمشق پہنچ کر اپنی فتح یابی کا اعلان کر دیا۔

باغی گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے شام کے دارلحکومت دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور ملک میں کئی دہائیوں کی اسد حکومت کے بعد بشار الاسد کو روس فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔حیات تحریر الشام گروپ کو آرگنازیشن فار دی لبریشن آف دی لیونٹ کے بان سے بھی جانا جاتا ہے۔اس کی بنیاد ایک فوجی کمانڈر ابو محمد الجولانی نے رکھی تھی جس نے عراق میں امریکی حملے کے دوران عراق میں امریکہ کے خلاف القاعدہ کے لیے ایک نوجوان لڑاکا کے طورپر اپنی گرفتاری اور قید سے  تجربہ حاصل کیا تھا۔جب جولانی کو رہا کیا گیا تو اس نے القاعدہ کی شامی الحاق جہت النصرہ بنانے کے لیے شام کا سفر کیا اور نظریاتی اختلافات اور آئی ایس آئی کی مخالفت کی وجہ سے 2016 میں القاعدہ کے ساتھ عوامی طور پر الگ ہونے تک اس گروپ کو چلایا۔اس کے بعد جولانی نے 2017کے اوائل میں ایچ ٹی ایس تشکیل دیا۔

جولانی کی اپنے نئے گروپ کو القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے دور کرنے کی کوشش کے باوجود امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ایچ ٹی ایس کو 2018میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس پر دس ملین ڈالر کا انعام رکھا۔اب جب کہ ایچ ٹی ایس نے دمشق پر قبضہ کر لیا ہے اور دوسرے گروہ ملک کے دوسرے علاقے کو کنٹرول کر رہے ہیں، جن میں ترکی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی اور کردوں کی زیر قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز شامل ہیں۔ جن کے عناصر کو ترکی ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھتا ہے۔ان تمام پیچیدہ باتوں اور مسائل سے شام کی صورتِ حال کا اتنی جلدی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

بشارالاسد کی معزولی کی خبر نے دمشق کی سڑکوں پر اور دنیا بھر میں جہاں شامی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے وہیں اسرائیل سمیت مغربی ممالک فکر مند و پریشان بھی ہیں۔ لیکن باغیوں کے ساتھ، جن کی قیادت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہی ہے، جسے امریکہ نے ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور جو اب کنٹرول میں ہے۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک شام کا مستقبل غیر یقینی ہے یا شام میں ایک بار پھر آن و شان لوٹ آئے گا؟ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجولانی ایک بار عراق میں امریکہ کے خلاف القاعدہ کے لیے لڑے تھے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے گروپ نے تب سے اعتدال پسندی اختیار کی ہے اور وہ شام میں جمہوری آزادیوں کو شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔جو کہ ممکن ہے مغربی ممالک سمیت اسرائیل کو پسند نہیں آئے گا کیونکہ اس میں اسلامی طرز زندگی کی شمولیت ہوگی جو کہ مغربی ممالک کے جمہوریت سے برعکس ہوگا اور جس سے شام ایک بار پھر امریکہ اور برطانیہ کے نشانے پر ہوگا۔

 

 

خیر بشارالاسد شام سے فرار ہو کر روس پہنچ گئے جہاں شاید اب وہ اپنی نئی اننگ کا آغاز کرے گے جو کہ ایک حکمراں کی طرح نہیں بلکہ ایک معزول انسان کی طرح ہوگی۔ لیکن وہاں بھی اسد کی نیند حرام رہے گی کیونکہ روس میں پوتین خود کافی دباؤ میں ہیں اور آنے والے دن کافی سخت ہوں گے۔اور اگر پوتین کسی وجہ  سے چلے گئے تو اسد کا مستقبل کیا ہوگا جو کہ اسد کے لیے ایک تشویش ناک بات ہے۔

مشرق وسطیٰ کے لوگ پر امید ہیں کہ ایچ ٹی ایس، شامی باشندوں کے لیے ایک روشن مستقبل فراہم کرسکتا ہے جو پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسد حکومت کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہ ہوگا کیونکہ شام کو اندرونی مسائل درپیش ہیں اور ساتھ ساتھ اسے پڑوس کے ملکوں سے بھی تال میل بنانا ہوگا،جس میں اسرائیل، ایران اور ترکی کا رول اہم ہوگا۔ خیر میں شام کے لیے ایک بہتر مستقبل کی امید کررہا ہوں لیکن یہ شاید ایک خطرناک امید ہو!

Leave a Reply