پچھلے دنوں معروف شاعر اور ادیب غالب ماجدی کا پیغام آیا کہ بزمِ اردو لندن کا سالانہ مشاعرہ ہورہا ہے اور آپ کی شرکت ہمارے لیے باعث عزو افتخار ہوگی۔میں نے بھی غالب ماجدی صاحب کی محبت اور خلوص کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور بزمِ اردو کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کی حامی بھر لی۔
12اکتوبر کی شام ساڑھے چھ بجے آئی ٹی کنسلٹنٹ تنویر عالم جن کا تعلق کلکتے سے ہے، ان کے ہمراہ سینٹ مارک چرچ، ویمبلڈن پہنچ گئے۔ہال بزمِ اردو لندن کے بینر سے سجا ہوا تھا اور اس بینر پر بڑی سی سید حسن کی تصویر آویزاں تھی۔ سید حسن نے 1986میں بزمِ اردو لندن کی داغ بیل ڈالی تھی۔ جو اتنے برسوں بعد بھی غالب ماجدی کی رہنمائی میں چھوٹے بڑے پروگرام کر رہی ہے۔جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اس دشوار دور میں جہاں مشاعرہ کمرشل ہوتا جارہا ہے اور اردو زبان پر مافیاز کا قبضہ ہوتا جارہا ہے وہیں بزمِ اردو لندن اب بھی اپنی روایتی شان سے اردو کی تقاریب منعقد کرتی ہے۔ جہاں مہمانو ں کو خوش آمدید سے لے کر شعرا اور ادیبوں کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جس کے لیے غالب ماجدی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
سچ پوچھیے تو لندن کی ادبی محفلوں سے میں مایوس تو نہیں بلکہ فکر مند ہوں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ نجی طور پر اپنی اپنی انجمن بنا کر ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو خوب الّو بنا رہے ہیں۔اپنی نجی انجمن کے بینر تلے ہندوستان اور پاکستان کے گویا، متشاعر اور متشاعرہ کے لیے محفلیں سجا کر ان کی شان میں جھوٹی خبریں بنا کر خوب واہ واہ لوٹ رہے ہیں۔اس کے علاوہ معصوم لوگوں کو جھانسا دے کر اردو کے نام پر خوب پیسے بھی بنا رہے ہیں اور اپنی دکان بھی چمکا رہے ہیں۔
کارِجنوں کا یہ امتیاز ہے کہ جو ممکن نہیں ہے وہ کام بھی ہوجاتا ہے۔ آج دنیا میں جتنے خلفشار ہیں اور انسان جس طرح مختلف نظریات اور مفادات کے پیشِ نطر مختلف جماعت میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ وہاں بزمِ اردو لندن جیسے ادارے کی اہمیت اور افادیت مشعلِ راہ بن جاتی ہے۔سینٹ مارک ہال ویمبلڈن لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور لندن کے شعرا نے اپنی خوبصورت غزلوں اور نظموں سے سامعین کو کافی محظوظ کیا۔ اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ دلی، ہندوستان سے تشریف لائے معروف صحافی اور شاعر سلیم شیرازی نے اپنے مخصوص انداز اور آواز سے سامعین کا دل جیت لیا۔اس کے علاوہ ڈاکٹر ہلال فرید، مصطفے شہاب، غالب ماجدی نے بھی اپنی خوبصورت شاعری پیش کی اور احسان شاہد کی خوبصورت نظامت نے مشاعرے کی معنویت میں اضافہ کیا۔
ا ردو ایک زندہ زبان ہے اور ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ پوری دنیا میں کروڑوں لوگ اردو زبان بولتے ہیں۔دنیا میں لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اِتھنولوگ (لینگویجز آف دی ورلڈ)کے مطابق دنیا کی تیس مقبول ترین اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو زبان کو انیسواں مقام حاصل ہے۔برطانیہ میں اردو جنوبی ایشیائی لوگوں میں وسیع پیمانے پر بولی اور پڑھی جاتی ہے۔یہاں زیادہ تر اردو بولنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان، افریقہ اور دیگر ممالک کے لوگ بھی اردو بولتے ہیں۔ 2000میں زبان کے متعلق لندن کے اسکولوں میں ایک سروے کروایا گیا تھا۔ جس میں یہ پایا گیا کہ لندن میں اردو دس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں پانچویں نمبر پر ہے۔تاہم برطانیہ میں اردو چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ 2011کے مردم شماری کے مطابق 269000ہزار لوگ برطانیہ میں اردو زبان بولتے تھے۔
’کمیونٹی میں ہم آہنگی‘ کے حوالے سے برطانیہ میں دسمبر 2016میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر وینڈی آئیر بینٹ نے برطانوی لوگوں کو’سماجی ہم آہنگی‘ کو مضبوط بنانے کے لئے دیگر زبانوں کو سیکھنے کا مشورہ دیا۔ خاص کر ان زبانوں کو جن کے بولنے والوں کی تعداد اُن علاقوں میں زیادہ ہیں جس سے سماجی ہم آہنگی میں مضبوطی آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت برطانیہ کے مقامی کمیونٹی میں سماجی ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے۔اس کے علاوہ انگریزوں کو بیرونی زبانوں کو سیکھنے کے لئے سہولیات فراہم کرنی چاہئے۔جہاں اردو زبان بولنے والوں کی تعداد کافی ہیں وہاں اردو زبان بولنے اور سیکھنے کی آسانیاں فراہم کرنی چاہئے تاکہ اس سے سماجی انضمام کو فروغ ہو۔
میں چونکہ اردو کا ادیب و شاعر ہوں اس لئے میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ بزمِ اردو لندن کے سالانہ مشاعرے کے ذریعہ جس طرح اردو کے تخلیقی اثاثے کو سامنے لایا جارہا ہے، وہ قابل ستائش ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہے۔ آج لندن میں اس پروگرام کا اہتمام کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں بھی اردو اور دیگر زبانوں کے چاہنے والے کثیر تعداد میں بسے ہوئے ہیں۔ بلکہ میں دعویٰ سے سے کہہ سکتا ہوں کہ برطانیہ اردو کا تیسرا مرکز ہے۔ یہاں جن شخصیات نے اردو کی شمع سے بزم ادب کو روشن کیا ان میں ساقی فارقی، رالف راسل، مقصود الہی شیخ، قیصر تمکین، رفعت شمیم، باسط کانپوری، رضاعلی عابدی، عاشور کاظمی، جتیندر بلوّ، آصف جیلانی، ڈاکٹر عبدالغفار عزم، سوہن راہی، امجد مرزا، غالب ماجدی،ڈاکٹر جاوید شیخ،مصطفے شہاب، ڈاکٹر ہلال فرید، احسان شاہد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
لندن ایک متحرک اور متنّوِع شہر ہے جو فن،آرٹ، ادب اور ثقافت کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس شہر نے صدیوں سے فنکاروں، ادیبوں اور ثقافتی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ لندن کا ادبی ورثہ قابلِ رشک ہے۔ اس شہر میں بہت سے معروف ادیب اور شاعر رہ چکے ہیں۔ جیسے ولیم شیکسپئیر، ان کا گلوب تھیٹر آج بھی لندن میں موجود ہے۔ جہاں ان کے ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں۔ چارلس ڈکنز، انہوں نے لندن کی زندگی اور سماجی حالات کو اپنے ناولوں میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ جورج اورویل اور ورجینیا وولف، ان جیسے کئی ادیبوں نے لندن کی زندگی اور سیاست کو اپنے کام میں مرکزی حیثیت دی ہے۔جب ہم جدید ثقافت کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ لندن میں موسیقی، فیشن اور جدید آرٹ کی ایک زبردست دنیا موجود ہے۔ یہ شہر دنیا کے بہترین کنسرٹس، فیشن شوز،اور آرٹ اِنسٹالیشنز کا میزبان ہوتا ہے۔ بے شک یہ شہر اپنی خصوصیات کی بنا پر فن، ادب اور ثقافت کے دیوانوں کے لئے کسی جنت سے کم نہیں۔
رات کے لگ بھگ دس بج چکے تھے۔ میں لندن کی سردی سے خوف کھانے لگا تھا لیکن بزمِ اردو لندن کے کامیاب مشاعرے کی گرماہٹ نے لندن کی سردی کو زائل کردیا۔بھوک ہم کو ستانے لگی اور میں آئی ٹی کنسلٹنٹ بھائی تنویر عالم کے ہمراہ کھانا کھانے ٹوٹنگ علاقے کے معروف نمکین ریسٹورینٹ چلا گیا۔ جہاں ہم نے مغلئی اور افغانی لذیز کھانے کا خوب لطف اٹھایا۔
آخر میں بزمِ اردو لندن کے،منتظمین، خاص کر غالب ماجدی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے بھی غزلیں سنانے کا موقع دیا۔میرا ماننا ہے کہ لندن میں اس طرح کی محفلوں کے ذریعہ اردو زبان و ادب کی خدمت اور سبھوں کو یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ زندگی کی لائف لائن، سانس لینے کا عمل نہیں بلکہ ایکٹیویٹی اورکاکردگی ہے۔ اس بنیاد پر بزمِ اردو لندن قابلِ فخر ہے، قابلِ رشک ہے، قابلِ تقلید ہے۔ اپنے شعر سے آج کی بات ختم کرتا ہوں کہ:
میں روشنی کا طرفدار ہوگیا ہوں فہیم
اندھیرے دیکھتے ہیں مجھ سے خوف کھاتے ہیں