You are currently viewing زخموں میں قلم ڈبو کر شعر کہنا

زخموں میں قلم ڈبو کر شعر کہنا

چند روز قبل معروف صدا کار بھائی یوسف ابراہم کا فون آیا اور انہوں نے بڑی محبت اور فراخدلی سے ساؤتھ ایشین فیسٹیول میں شرکت کی گزارش کی۔ ساتھ میں مجھے ایک کمپلیمنٹری ٹکٹ بھی بھیج دیا۔

یوسف ابراہم سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کر رہے ہیں اور ان کی تلفظ کے حوالے سے پوسٹ سوشل میڈیا پر اتنا مقبول ہورہی ہے کہ اسے دیکھنے والوں کی تعداد لاکھ ہوچکی ہے جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔اس کے علاوہ یوسف ابراہم فیس بُک پر لندن وائس کے نام سے بھی گروپ چلاتے ہیں جودنیا بھر کے  لکھنے پڑھنے والوں میں کافی مقبول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وقت کی کمی کے باعث آج کل لندن کے کسی پروگرام میں چاہ کر بھی شرکت نہیں کر پاتا ہوں۔ سوموار سے جمعہ تک دفتر کی مصروفیت اور باقی ہفتہ اور اتوار کو آرام کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کے شغل نے مجھے یوں کہہ لیجئے کہ ہاؤس باؤنڈ کر رکھا ہے۔ یعنی کہ ایک خوشنما قید کی زندگی، جس کی سزا نرالی ہے۔تاہم ساؤتھ ایشین فیسٹیول میں بطور سامع شرکت کر کے مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی۔

لندن میں موسیقی، فیشن اور جدید آرٹ کی ایک زبردست دنیا موجود ہے۔ یہ شہر دنیا کے بہترین کنسرٹس، فیشن شوز اور آرٹ کا میزبان ہوتا ہے۔ لندن کی یہی خصوصیات اسے ایک ایسا شہر بناتی ہے جو فن، ادب اور ثقافت کے دیوانوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔لندن ایک متحرک اور متنوع شہر ہے۔ جو فن، آرٹ، ادب اور ثقافت کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس شہر نے صدیوں سے فنکاروں، ادیبوں، اور ثقافتی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہاں کی آرٹ اور گیلیریاں دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ٹیٹ مارڈن دنیا کے سب سے بڑے اور جدید آرٹ گیلیریوں میں سے ایک ہے۔ یہاں جدید اور معاصر فنکاروں کے کام کو پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نیشنل گیلیری میں یورپی مصوری کے عظیم فن پارے ملیں گے۔ جیسے کہ ونسنٹ وین گوگ، لیوناروڈ داونچی اور مونیٹ کی تصویریں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔

لندن کا ادبی ورثہ بھی بہت غنی ہے۔ اس شہر میں بہت سے معروف ادیب اور شاعر رہ چکے ہیں۔ معروف ادیب ولیم شیکسپئیر کا گلوب تھیٹر آج بھی لندن میں موجود ہے جہاں ان  کے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔ چارلس ڈکنز نے لندن کی زندگی اور سماجی حالات کو اپنے ناولوں میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ لندن کا ویسٹ اینڈ تھیٹر ڈسٹرکٹ، تھیٹر کا مرکز ہے جس کے قریب ہی ہندوستانی ہائی کمیشن کی عمارت بھی موجود ہے۔لندن کے تھیٹر میں ہر سال سینکڑوں شوز پیش کیے جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے اردو ڈرامے بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی جو اتنی کامیاب نہ ہوسکی۔ تاہم کئی سال قبل نصیرالدین شاہ کی “عصمت آپا کے نام “نے کافی دھوم مچایا تھا جسے میں نے بھی واٹڑ مین تھیٹر میں اپنی بیگم ہما کے ساتھ دیکھا تھا۔

ساؤتھ ایشین فیسٹیول نے 14ستمبر کو آرٹ اور میوزک میں بولے جانے والے لفظ، جذبے اور کارگردگی کے ایک عمیق تجربے کو لوگوں میں پیش کیا۔ جس کا مقصد برطانیہ اور ا س سے باہر کے جنوبی ایشیائی باشندوں کے درمیان بات چیت کو فروغ دینے، روابط کو فروغ دینے اور تحریک پیدا کرنے کے لیے مہارت کے ساتھ تیار کیا گیا۔ساؤتھ ایشین فیسٹیول لندن کے معروف بلومسبری تھیٹر لندن میں دلچسپ نئی صلاحیتوں کے ساتھ معروف فنکاروں کو پیش کیا۔ اس سال ادب کے تین اہم شخصیات، میر تقی میر، قاضی نذرالاسلام اور حمید اختر کی زندگی اور ان کا کام پر دانشوروں نے باتیں کیں۔

دوپہر دو بجے مورڈن اسٹیشن سے ناردن لائن انڈر گراؤنڈ ٹرین پر سوار ہو کر لگ بھگ ایک گھنٹے بعد یوسٹن اسٹیشن پہنچ گیا۔ اسٹیشن مسافروں سے بھرا  ہؤاتھا اور ہم بھیڑ کو چیرتے ہوئے تیز قدمی سے پانچ منٹ میں بلومسبری تھیٹر پہنچ گئے۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور یوسف ابراہم محترمہ عروج آصف کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میں بمشکل اپنی سیٹ کو اندھیرے میں ڈھونڈکر براجمان ہوگیا اور پروگرام سے لطف اندوز ہونے لگا۔ساؤتھ ایشین فیسٹیول پچھلے کئی برس سے لندن میں ادب، آرٹ اور ثقافت کے پروگرام کو پیش کرکے ایشیائی لوگوں میں خوب مقبول ہورہا ہے۔ اس پروگرام میں سلمان اختر، مظہر عباس، افتخار عارف، معروف اداکارہ صبا حمید، کے علاوہ پاکستان کی معروف گلو کارہ صنم ماروی، ارشاد عالمگری، وشوا کنچالانے بھی شرکت کی اور اپنے فن سے لوگوں کا دل جیت لیا۔

پروگرام کا آغاز سلمان اختر کی باتوں سے ہوا۔ جس سے میں کافی محظوظ ہوا۔سلمان اختر معروف فلمی نغمہ نگار اور شاعر جاید اختر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ دراصل مجھے پہلی بار سلمان اختر سے ملنے اور سننے کا موقعہ ملا۔ اس کے علاوہ سلمان اختر نے اپنی دو کتابیں ” گھر کا بھیدی “اور “آدھا علاج “کے حوالے سے کئی اہم باتیں بتائیں۔ گھر کے بھیدی کے حوالے سے سلمان اختر نے بتایا کہ ان کے دادا مضطر خیر آبادی کی ایک غزل آٹھ یا دس صفحات پر ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے شعر کا ایک مصرعہ ایک دو نہیں بلکہ کئی لائن کی ہوتی تھیں۔ سلمان اختر نے ان اشعار کو پڑھ کر بھی سنایا جس سے مجھے حیرت ہوئی کہ سلمان اختر کا حافظہ کتنا مضبوط ہے۔اس کے بعد اپنے والد جاں نثار اختر کی شاعری پر بات کی۔ اپنے ماموں اسرارالحق مجاز کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری پڑھ کر علی گڑھ کی لڑکیاں تکیے میں منہ چھپا کر روتی تھیں۔ لیکن مجاز کا عشق ایک شادی شدہ خاتون سے ہونا اور ان کی موت نشے کی حالت میں فالج سے ہوجانا ایک عجیب سانحہ تھا۔ آخر میں اپنے بڑے بھائی جاوید اختر کے پانچ اشعار کا بھی ذکر کیا اور ان کے حوالے سے چند باتیں کیں۔

بین الاقوامی شہرت کے مالک، ماہر نفسیات، ڈاکٹر، ادیب اور شاعر سلمان اختر برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ان کی کتاب میں لکھا ہے کہ اردو ادب سے لگاؤ اور اُس کی خدمت انہیں خاندانی روایت نے بھی بخشی ہے اور اُن کے اپنے جذباتی رُجحان نے بھی۔ لکھنوی حلاوت، امریکی بے تکلّفی، ہجرت کا کرب، انگریزی زبان کے جرات مندانہ طریقہ اظہار یہ سب ہمیں اُن کے کلام میں ملتے ہیں۔  سلمان اختر اپنی بات ختم کر کے باہر آئے تو میر ی ان سے مختصر ملاقات ہوئی۔ میں نے سلمان اختر صاحب کو اپنا تعارف کراتے ہوئے ان کی گفتگو کی سراہنا کی۔ میں نے سلمان اختر سے کہا کہ آپ نے جو اپنا شعر پڑھا، جانے کب تم سے شعر لکھوادے۔ زخم کے پاس اک  قلم رکھنا، دراصل میں تو زخموں میں قلم ڈبو کر شعر لکھتا ہوں۔ سلمان اختر صاحب میری بات سن کر مسکرائے اور پھر بھیڑ میں گُم ہوگئے۔

مجھے ان سے ایک اور سوال پوچھنا تھا کہ کیا ان کے خاندان کا شعری سلسہ جو مضطر خیر آبادی سے شروع ہؤا اور کیا یہ سلمان اختر پر ختم ہوجائے گا۔ لیکن پروگرام اور لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے قاصر رہا۔

میں تنہااسٹال پر پڑی کئی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا تبھی میری نظر سلمان اختر کی نئی کتابوں پرپڑی۔ اسٹال پر بیٹھی خاتون سے ہم نے آدھا علاج اور گھر کا بھیدی دس پاؤنڈ ادا کرکے خریدیں اور گھر واپسی پر انڈر گراؤنڈ میں بیٹھا سلمان اختر اور کے خاندان کا مطالعہ کرتا رہا۔

شام نے اپنے جال بچھا دئیے تھے۔ ہلکی ہلکی سردی سے بے پرواہ لوگ لندن کی شاہراہوں پرادھر ادھر بھاگتے دکھائی دے رہے تھے۔ پاس ہی ایک ایشیائی دکان میں بیٹھ کر ہم نے چاٹ سموسہ کھایا اور جب تنہائی نے ستانا شروع کیا تو ہم نے ایک ہندوستانی چائے کاآرڈر دیا اورچسکی لیتے ہوئے خیالوں کی بھیڑ میں گُم ہوگیا۔

Leave a Reply