جنگ انسانی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے جو ہمیشہ سے نہ صرف قوموں کے درمیان بلکہ افراد اور معاشروں کے درمیان بھی بڑی تباہی کا باعث بنی ہے۔ جنگ کے نقصانات ہر سطح پر بہت گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں۔ جنگ میں سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ہوتا ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد جنگ کی ہولناکیوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان میں نہ صرف فوجی بلکہ بے گناہ شہری، بچے اور بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ جنگوں کے نتیجے میں ممالک کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ جنگی اخراجات بنیادی ڈھانچے کی تباہی، صنعتوں اور زرعی علاقوں کی بربادی معاشی نظام کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔جنگ کے دوران اور بعد میں معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ لوگ اپنے گھروں، کاروبار اور زندگی کے معمولات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں اور مہاجرین بن کر دوسرے ممالک یا علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ جنگ سے متاثر افرادکے ذہنی اور نفسیاتی صحت پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بہت سارے لوگ مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جیسے کہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈ وغیرہ۔جنگ کے دوران انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، خواتین اور بچوں کا استحصال اور عام شہریوں کے حقوق کی پامالی جنگ کا افسوسناک پہلو ہوتا ہے۔
فلسطینی گروپ حماس نے پچھلے سال اکتوبر میں اسرائیل پر ایک بے مثال حملہ شروع کیا، جس میں سینکڑوں بندوق بردار غزہ کی پٹی کے قریب گھس آئے۔ اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق 1200اسرائیلی مارے گئے اور 250سے زیادہ کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔ جس کے بعد اسرائیل نے پوری طرح غزہ کو تباہ و برباد کر دیا اور اب تک لگ بھگ 40000فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا۔
پہلی جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ کے اس حصے پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے نام سے مشہور علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس سر زمین پر یہودی اقلیت اور عرب اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے نسلی گروہ بھی آباد تھے۔اسرائیلی اور فلسطینی لوگوں کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب عالمی برادری نے برطانیہ کو یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک” قومی گھر “قائم کرنے کا ٹاسک دیا۔یہ 1917کے بالفور اعلامیہ سے ہوا، جو اس وقت کے خارجہ سیکریٹری آرتھر بالفور نے برطانیہ کی یہودی برادری سے کیا تھا۔اعلامیہ فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ میں شامل تھا اور 1922میں نو تشکیل شدہ لیگ آف نیشنز، اقوام متحدہ کے پیش رو اس کی توثیق کی تھی۔ یہودیوں کے لیے فلسطین ان کا آبائی گھر تھا لیکن فلسطینی عربوں نے بھی اس زمین پر دعویٰ کیا اور اس اقدام کی مخالفت کی۔جس کے بعد سے اب تک یہ معاملہ اتنا طول پکڑ چکا ہے کہ اب اسرائیل اور فلسطین کے بیچ بات بات پر جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔
1948میں مسئلہ حل کرنے میں ناکام، برطانیہ پیچھے ہٹ گیا اور یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانا تھا۔ کئی مہینوں سے یہودی اور عرب کے درمیان لڑائی شدت اختیار کرہی تھی اور اسرائیل کی جانب سے ریاست کا اعلان کرنے کے اگلے ہی دن پانچ عرب ممالک نے حملہ کردیا۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن کی بحالی میں برطانیہ کی ناکام اور متعصب پالیسی اور پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کھلے عام غنڈہ گردی کرہا ہے۔اب تو برطانیہ بھاری مقدار میں اسرائیل کو جنگ کے لیے اسلحہ سپلائی کرتا ہے اور اپنے دفاع میں کہتا ہے کہ اسرائیل کی حفاظت کاہم نے عہد کیا ہے۔ توکیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کر کے معصوم فلسطینیوں کو ہلاک کرنے کا بھی عزم کیا ہے؟
پچھلے کچھ روز سے جو قیاس تھا کہ اسرائیل لبنان پر حملہ کرے گا وہ بہت حد تک سچ ثابت ہوا اور لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی کے ذریعہ معصوم لوگوں کی جس طرح جان لی گئی ہے اس سے دنیا ایک نئے انداز سے جنگ میں شامل ہوگئی ہے۔حزب اللہ نے تصدیق کی ہے اس کے سینئر کمانڈر ابراہیم عاقل اور احمد وہبی دونوں جمعے کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے حملے میں مارے گئے تھے۔ جس میں تین بچوں سمیت کم از کم 31افراد ہلاک ہوئے تھے۔اسرائیل ڈیفنس فورسز نے کہا کہ اس حملے میں ایران کے حمایت یافتہ گروپ کی ایلیٹ رضوان یونٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ لبنان میں رواں ہفتے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکے سے جن میں 37افراد ہلاک ہوئے، جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ وہیں اسرائیلی فضائیہ نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے سینکڑوں راکٹ لانچر پر حملہ کیا۔ جس سے اسرائیل اور لبنان میں جنگ کے آثار اور بڑھ گئے ہیں۔
تاہم میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس بات پر افسوس کرتارہا کہ اسرائیلوں نے فلسطینیوں پر ظلم کی ہرانتہا پار کر دی ہے۔کبھی ہم اپنی بے بسی پر آنسو بہا کر خاموش بیٹھ جاتے تو کبھی احتجاجاً کچھ لکھ کر اپنی آواز کے ذریعہ دنیا کو آگاہ کرتے کہ بس اب فلسطینیوں پر ظلم بند ہونی چاہیے۔تو کبھی ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگتے کہ یا اللہ کوئی حل نکلے اور فلسطین آزاد ہو۔وہیں اپنے اپنے طور پر دنیا بھر میں لوگ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔جس کی ایک وجہ فلسطینیوں کی کمزور لیڈر شپ اور عرب ممالک کی لاپرواہی بھی کہا جاسکتا ہے۔
یوں تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں تناؤ مسلسل بنا رہتا ہے۔ جس کی ایک وجہ اسرائیلیوں کا فلسطینی زمین پر ناجائز قبضہ اور ان کا جارحانہ رویہ ہے۔ جس کی مخالفت میں امریکہ اور مغربی طاقتیں اپنا منہ بند کئے بیٹھی رہتی ہیں۔ آئے دن سوشل میڈیا اور کبھی کبھار عالمی خبروں کے ذریعہ اسرائیلی لوگوں کو فلسطینی زمین ہڑپ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔جس میں بے بس فلسطینی سوائے اپنی آواز بلند کرنے کے اور کچھ نہیں کر پاتے۔ اس پر ستم یہ کہ ان بے گھر فلسطینی کا کوئی پرسانِ حال بھی نہیں ہوتا ہے۔اگر کسی نے ان کی حمایت میں بات کرنے کی کوشش کی تو اس کو مختلف زاویے سے کسی نہ کسی طرح اسرائیلی مخالف بتا کر منہ بند کروادیا جاتا ہے۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے یہودی اور عرب دریائے اردن اور بحیرہ روم کے سمندر کے درمیان سر زمین کے مالک بننے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ 1948میں اسرائیل کا قیام ہونے کے بعد سے فلسطینیوں کو کئی طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ تنازعہ اب بھی جاری ہے اور دونوں ہی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک یقینی بات یہ ہے کہ ہر چند سالوں میں میں کم از کم ایک سنگین اور پر تشدد بحران ضرور پیدا ہوتا ہے۔آئے دن اسرائیلی پولیس فلسطینیوں پر فائرنگ کرتے یا انہیں مارتے پیٹتے۔اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ، (جو کہ مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس مقام ہے)کے اندر سی ایس گیس اور اسٹن گرینیڈ استعمال کئے جاتے۔
عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے یروشلم شہر کا تقدس صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ یہودی اور مسلمان مقدس مقامات کو قومی علامت بھی سمجھتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یا لفظی طور پر ان مقدس مقامات کی دوری کوایک پتھر پھینکنے کی دوری سے بھی مشابہت کر سکتے ہیں۔اسرائیلی چوکی کے دوسری طرف، ہولی سیلچر چرچ بھی قریب ہے۔اس کے پاس ہی پرانے شہر یروشلم کی دیواروں کے باہرفلسطینیوں کاشیخ جراح کا وہ علاقہ ہے جہاں انہیں گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس کا معاملہ اسرائیل کی عدالتوں میں چل رہا ہے جہاں یہودی آباد کار گروہوں فلسطینی زمین اور جائدادکا دعویٰ کر رہے ہیں۔
یروشلم کے جراح علاقے کی فلسطینی زمینوں کا معاملہ عام تنازعہ سے زیادہ ہے۔ یروشلم کو مزید یہودیوں کا علاقہ بنانے کی سازش کئی برسوں سے جاری ہے۔ جس کی اسرائیلی حکومت حمایت بھی کرتی ہے۔بین الاقوامی قانون کو توڑتے ہوئے فلسطینیوں سے زمین چھین کر یہودیوں کے مکانات تعمیر کئے جارہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور آباد کارگروہوں نے پرانے شہر یروشلم کے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے کئی مکانات تعمیر کئے ہیں۔ جس پر فلسطینی مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین لڑائی کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ بل کہ یوں کہہ لیجئے کہ ہر سال چھوٹے بڑے پیمانے پر جھڑپ ہو ہی جاتی ہے۔اسرائیلی ہزاروں فلسطینیوں کو مار ڈالتا ہے اور اقوام متحدہ بے بس تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔عام طور پر یروشلم میں ایک مقدس پہاڑی کے احاطے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے مابین اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔اس جگہ کو مسلمان اور اسرائیلی دونوں احترام کرتے ہیں۔مسلمانوں کے لئے قبلہ اول بیت المقدس،(حرم الشریف،نوبل سینکچری) اور یہودیوں کے لئے ہیکل پہاڑ قابلِ احترام ہے۔
دونوں طرف اپنی گہری مذہبی اور قومی اہمیت کے حامل لوگوں میں اس شہر کی تقدیر کئی عشروں پرانے اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کا مرکز رہا ہے۔اسرائیل نے 1980میں مشرقی یروشلم کو منسلک کر دیا تھا اور اس پورے شہر کو اپنا دارلحکومت سمجھا تھا۔ حالانکہ اس کو دوسرے ممالک کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی ہے۔ وہیں فلسطینی امید اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یروشلم کے مشرقی نصف حصہ ان کی اپنی ریاست ہے۔غزہ کی پٹی سے حماس کی اسرائیل پر حملے اور ہزاروں اسرائیلوں کی ہلاکت سے اسرائیل سمیت عالمی برادری کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ جس کے جواب میں ہر بار کی طرح اسرائیل امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پست پناہی میں غزہ پٹی کو نیست و نابود کررہا ہے۔لیکن حماس بھی ہر بار کی طرح اسرائیل سے مرتے دم تک لڑرہی ہے اور فلسطینی آزادی کے لئے اپنا خون بہائے جارہی ہے۔
اسرائیل نے اپنی درندگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے غزہ پٹی میں کھانا پینا اور ضروری ایشیا سپلائی کو بند کی ہے جس پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف اسرائیلی جوابی فضائی حملوں نے غزہ کی پٹی میں رہائشی عمارتوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا جو کہ محاصرہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ کہیں اسرائیل کے قیام کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم ایک بہانہ تو نہیں تھا؟ اگر آپ اس پر غور کریں تو ہٹلر کو ایک خاص قوم یہودیوں کو نشانہ بنانا اور اس کی اس حرکت سے آخر کار 1948میں برطانیہ نے اپنی طاقت سے اسرائیل ملک کے قیام کا اعلان کر دیا۔یہ بات تو زیرِ بحث ہے اور رہے گی کہ آخر ہٹلر اپنی طاقت کا نشانہ صرف یہودیوں ہی کو کیون بنا رہا تھا؟ لیکن ایک بات تو اب سمجھ میں آتی ہے کہ ہٹلر کے ذریعہ لاکھوں یہودیوں کو مارنے کانتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کو ان کا ایک ملک مل گیا جس کا نام اسرائیل پڑا۔اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں کہ اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کی زمین کو ہڑپ کر کے کیا گیاتبھی تو عالمی برادری منہ بند کئے محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔
میں فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف اسرائیل کی درندگی کی سخت مذمت کرتا ہوں اور انسانی جانوں کی نقصان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔میں امید کرتا ہوں کہ عالمی برادری اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرے تاکہ معصوم لوگوں کی جان نہ جائے اور خون مزید نہ بہے۔ تاہم فوری طور پر امن کا قیام مشکل دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر جب دونوں جانب سے شدت پسند گروہ طاقتور ہو رہے ہیں اور تشدد بڑھ رہا ہے۔ لیکن دفتاً فوقتاً جنگ بندی کی کوشش ہوتی رہی ہیں اور اگر بین الاقوامی برادری موئثر کردار ادا کرے تو امن کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔