حال ہی میں پاکستانی ٹیلی ویژن سما کے مکالمہ پروگرام میں معروف ماہر نفسیات اور اسلامک اسکالر ساحل عدیم نے طاغوت کی تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے ایک لڑکی کو “جاہل “کہہ دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 95%فی صد خواتین جاہل ہیں۔ پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر ہر کوئی اس بحث میں کود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے طاغوت لفظ نے لوگوں کو ایسا الجھایا کہ ہر کوئی لفظ طاغوت کو جاننے کا متمنی ہوگیا۔
سچ پوچھئے تو کچھ پل کے لیے میں بھی خود کو جاہل سمجھنے لگا۔ کیونکہ طاغوت لفظ پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ بس جناب فوراً مطالعہ کرنے بیٹھ گیا اور دھیرے دھیرے جب طاغوت کے متعلق علم میں اضافہ ہونے لگا تو مجھے خود کو جاہل محسوس ہونے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔جب طاغوت کی بحث چھڑی تو سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ کون سچ کہہ رہا اور کون جھوٹ۔ بس سوشل میڈیا سبھی کی بات کو شامل کرکے ہمیں یوں الجھا دیا کہ مت پوچھئے۔ تبھی اس بات کا احساس ہوا کہ اصل میں شیطان جو اللہ کا نافرمان ہے اس نے ہمارے درمیان اپنے طاغوت کی چال چل دی۔ اور ہم سب اپنی لا علمی کی وجہ سے ایسے شیطانی جال میں پھنسے کے جو بات طاغوت سے شروع ہوئی وہ ہم سب مسلمانوں کو جاہل ثابت کر کے چھوڑا۔اسلامی تعلیمات میں جاہل وہ شخص ہوتا ہے جو علم سے محروم ہو اور جو دینی و دنیوی معاملات میں صحیح رہنمائی نہ رکھتا ہو۔ جاہل کا مطلب یہ بھی ہوتا کہ وہ شخص جس میں تربیت اور اخلاقی شعور کی کمی ہو۔
2000 سے اب تک 24برس سے میں مسلسل لکھ،پڑھ رہا ہوں۔دنیا بھر کے اخبارات، رسائل اور سوشل میڈیا پر اپنی باتوں کو پوسٹ کرتا رہتاہوں۔جس سے حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور لوگوں کے مشوروں سے سیکھتااور سکھاتا رہتا ہوں۔ تاہم بچپن سے جوانی تک مدرسہ، اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں جاکر اساتذہ سے بھی سیکھااور انہوں نے ہمیں تعلیم یافتہ بنایا۔ اب بھی جب کوئی نئی بات کا علم ہوتا ہے یا جب اس کا مطالعہ کرتا ہوں تو میرے علم میں اس کا اضافہ ہوتا ہے اور میں اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج ہم نے ایک نئی بات سیکھی ہے۔
لیکن بحث و مباحثہ میں اگر کوئی ہمیں جاہل کہہ دے تو سچ پوچھئے، لفظ جاہل کا فی ناگوار گزرتاہے۔حالانکہ لفظ جاہل اردو کا لفظ ہے، لیکن بدقسمتی سے کچھ الفاظ ہمیں خوامخواہ “گالی” محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ آپ کی لاعلمی پر حیرانی یا غصے سے جاہل کہہ دیتے ہیں۔لیکن یہ بات اس ان کے رویے پر منحصر ہے کہ کیا اس شخص نے غصے میں جاہل کہا یا واقعی جاہل کہہ کر اس نے ہماری لاعلمی کا احساس دلایا ہے۔ویسے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ جاہل کا استعمال غصے میں کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ کسی کو بھی کافی تکلیف پہنچتی ہے۔
اب کتے کی مثال ہم لیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں معاشرے میں کتے کی بڑی عزت ہے۔تاہم یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان دنوں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی امیروں کے یہاں کتے نے اپنا مقام بنالیا ہے۔لیکن مغربی ممالک اور خاص کر برطانیہ میں کتے کا رہن سہن، کھاناپینا، اور طور طریقہ یعنی ہر چیز اسے یوں سکھایا جاتا ہے کہ وہ کتا خاندان کا ایک فرد بن جاتا ہے۔ حال ہی میں یوگا کلاس سے قبل لوگ اپنا اپنا حالِ زار سنا رہے تھے تو ایک خاتون نے بڑے ہی شان اور خوشی سے بتا یا کہ پچھلے ہفتے ان کی ملاقات” گرینڈ پیٹ “سے ہوئی۔ پہلے تو یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ” گرینڈ سن” یا “گرینڈ ڈاوٹر” تو سنا تھا یہ” گرینڈ پیٹ “کیا ہوتا ہے۔ مجھے اپنی لاعلمی پر شرمندگی تو ہو ہی رہی تھی اور محسوس ہوا کہ میں اب بھی جاہل ہوں۔ پھر یوگا کی ٹیچر نے میری پیشانی پر بل اور میرے چہرے کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ فہیم،جیکی کے بیٹے نے ایک کتا خریدا ہے جسے جیکی گیرینڈ پیٹ کہہ رہی ہے۔یعنی جیکی کے لئے اس کے بیٹے کا خریدا ہوا کتا اب اس کا پوتا ہوگیا۔ میں نے بھی مسکرا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا،لیکن یوگا کے بعد گیرینڈ پیٹ کا لفظ پہلی بار سن کر حیران و پریشان رہا۔اب اسے ہم اپنی خامی سمجھیں کہ لفظ”جاہل “یا “کتا” وغیرہ اگر ایک ہندوستانی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی باشندے کو مخاطب کر کے کہا جائے تو بس بات سیدھے سیدھے دل پر لگتی ہے اور معاملہ اتنا پیچیدہ اور خطرناک ہوجاتا ہے کہ کبھی کبھار خون خرابہ کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
طاغوت ایک عربی لفظ ہے جو عمومی طور پر ہر ایسی چیز، طاقت یا شخص کو ظاہر کرتا ہے جو اللہ تعالی ٰ کی حاکمیت کو چیلنج کرے یا لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ قرآن مجید میں طاغوت کا تذکرہ مختلف مواقع پر آیا ہے اور مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت سے بچیں اور صرف اللہ کی عبادت کریں۔ لفظ “طاغوت” عربی لفظ طغی سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے سرکشی کرنا یا حد سے تجاوز کرنا۔ قرآن مجید میں طاغوت کا استعمال ان لوگوں، طاقتوں یا چیزوں کے لئے کیا گیا ہے جو اللہ کی فرمانبرداری سے روکتے ہیں۔ جیسے سورۃ البقرہ میں کہا گیا ہے: لَاَ اِکرَاہَ فیِ الدِینِ قَذ تِّبَیَّن َ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ فَمن یَّکفُر بِاَلطَّاغُوتِ وَ یُومِن بِا للہ ِ فَقَدِ استَمسکَ بِا لعُر وَۃِ الوُ ثقیٰ لاَ انفِصَامہَ لَھَا وَالللہُ سَمِیعُ عَلِممُُ۔۔(دین میں کوئی جبر نہیں ہے ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے تو جو کوئی بھی طاغوت کا انکار کرے اور پھر اللہ پر ایمان لائے تو اس نے بہت مضبوط حلقہ تھام لیا جو کبھی توٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے)۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ طاغوت ہر اس چیز، نظریہ یا شخص کو شامل کرتا ہے جو اللہ کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ شیطان، بت، ظالم حکمران، یا کوئی بھی ایسا نظام ہوسکتا ہے جو اللہ کے دین کے خلاف ہو۔ احادیث میں بھی طاغوت کا ذکر آیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ طاغوت کی پرستش کرتے ہیں، وہ گمراہ ہیں۔
شیطان طاغوت کی سب سے بڑی مثال ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ظالم حکمران ہیں،جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور اللہ کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں اور بت، جو اللہ کے سوا پوجے جاتے ہیں۔ اسلام میں طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان لانا بنیادی شرط ہے۔ مسلمانوں کو صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہئے اور ہر قسم کی طاغوتی قوتوں سے بچنا چاہئے۔ اسلامی تعلیمات میں طاغوت کا مفہوم وسیع ہے اور یہ ہر اس چیز یا شخص کو شامل کرتا ہے جو اللہ کی بندگی سے روکتا ہے۔ قرآن مجید میں طاغوت کا ذکر مختلف جگہوں پر آیا ہے، جہاں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت سے بچیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔
طاغوت عام طور پر کسی ایسی چیز یا شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اللہ کے مقابلے میں بغاوت کرے یا لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹا دے۔ قرآن میں طاغوت کی طرف رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مومنوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ تاہم آج کے دور میں طاغوت کسی بھی ظالم حکومت، نظام یا فرد کو کہا جاسکتا ہے جو ظلم، فساد اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ مثال کے طور پر شیطان کو بھی بعض اوقات طاغوت کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو اللہ کی عبادت سے ہٹا تا ہے۔ ایک ظالم حکمران جو اپنی حکومت میں ظلم و ستم کرتے ہیں، ان کو بھی طاغوت کی مثالوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں جاہل وہ شخص ہوتا ہے جو علم سے محروم ہو اور جو دینی و دنیوی معاملات میں صحیح رہنمائی نہ رکھتا ہو۔ جاہل کا مطلب یہ بھی ہوتا کہ وہ شخص جس میں تربیت اور اخلاقی شعور کی کمی ہو۔ تاہم لاعلمی اور جہالت میں فرق بنیادی طور پر علم اور اس کے رویے پر مبنی ہوتا ہے۔ لا علمی کا مطلب ہے کہ کسی شخص کو کسی خاص موضوع یا معاملے کے بارے میں علم نہیں ہے۔ یہ ایک عارضی حالت ہے اور علم حاصل کرنے سے دور کی جاسکتی ہے۔ لاعلمی عموماً اس وجہ سے ہوتی ہے کہ فرد کو ابھی تک اس موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے بر عکس جہالت عام طور پر ایک منفی اصطلاح ہے اور اس کا مطلب ہے کہ کسی شخص کے پاس نہ صرف علم کی کمی ہے بلکہ وہ علم حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کر تا یا حقیقت کو قبول نہیں کرتا۔ جہالت ایک زیادہ مستقل حالت ہو سکتی ہے، جس میں انسان اپنی لاعلمی پراڑا رہتا ہے یا غلط معلومات پر یقین رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص سائنس کے ایک مخصوص شعبے کے بارے میں لاعلم ہے، تو یہ لا علمی ہے۔لیکن اگر وہ شخص جان بوجھ کر صحیح معلومات کو رد کرتا ہے یا غلط معلومات پھیلاتا ہے، تو یہ جہالت کہلائے گا۔
مذہبی نقطہ نظر سے کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ طاغوت کے خلاف جنگ کریں، اس سے بچیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ طاغوت کی اس وضاحت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں طاغوت سے بچنا اور اللہ کی بندگی کی طرف رجوع کرنا ایک بنیادی نقطہ ہے۔طاغوت کا تصور اسلامی تعلیمات میں بہت اہم ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہر ایسی چیز یا شخص جو اللہ کی حاکمیت اور قوانین کو چیلنج کرے۔ مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ طاغوت کی پہچان کریں اور اس سے دور رہیں تاکہ وہ اللہ کی رضامندی حاصل کر سکیں۔