پیرس اولمپکس 2024 کا افتتاح 26جولائی کو ایک منفرد اور شاندار طریقے سے ہؤا اور یہ پیرس کی میزبانی میں ہونے والے تیسری اولمپکس ہے۔ کہا جارہا تھا کہ پیرس اولمپک ایک ایسی افتتاحی تقریب پیش کرے گا جو یقینی طور پر اولمپک کی تاریخ کے سب سے یادگار لمحات میں شامل ہوں گے۔ اور ایسا ہی ہوا بھی جب دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر پیرس اولمپکس کا بھر پور لطف اٹھایا۔
پیرس اولمپکس میں پہلی بار افتتاحی تقریب کسی اسٹیڈیم میں نہیں ہوا۔ بلکہ افتتاحی تقریب پیرس شہر کے مرکز میں دریائے سین پر منعقد ہوئی۔جو کہ اپنے طور پر ایک انوکھا اور دلچسپ افتتاح تھا۔ دریائے سین پر ایک نئی شکل اختیار کرتے ہوئے ہر قومی وفد کے لیے کشتیوں کے ساتھ دریائے سین پر کھلاڑیوں کا رنگ برنگی پریڈ کرائی گئی۔یہ کشتیاں کیمروں سے لیس تھیں تاکہ ٹیلی ویژن اور آن لائن ناظرین کھلاڑیوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔مشرق سے مغرب تک اپنا راستہ سمیٹتے ہوئے، لگ بھگ 10500ایتھلیٹ پیرس کے مرکز سے گزرے۔ پیرس اولمپکس زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کی رسائی ہو اس کے لئے اسّی دیو قامت اسکرینیں لگائی گئی ہیں۔
اولمپک گیمس دنیا کا سب سے اہم اور خوبصورت گیم مانا جا تا ہے۔ اس میں دنیا بھر کے کھلاڑی اپنی عمدہ صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر حصہّ لیتے ہیں اور اپنی عمدہ کارکردگی سے دنیا کو بہترین کھیل کا نمونہ پیش کرتے ہیں جس سے دنیا بھر میں کھیل کے شائقین محظو ظ ہوتے ہیں۔ اولمپک گیم میں حصہّ لینا ہر کھلاڑی کا ایک خواب ہوتا ہے اور جس کے لئے اسے کئی برسوں تک مشق بھی کرنا پڑتا ہے تب جا کر اسے اولمپک میں حصہّ لینے کا موقع ملتا ہے۔آئیے آج ہم آپ کو اولمپک گیمز کی تاریخ اور اس قدیم گیمز کی اہمت کے بارے میں بتاتے ہیں۔
اولمپک گیمز ایک تاریخی گیم ہے جس کی شروعات یونان سے ہوئی تھی۔ کہا جا تا ہے کہ یونانی کھیل کو بہت پسند کرتے ہیں اور قدیم کیلنڈر کے حوالے سے اولمپک گیمس سب سے بڑا اور مقبول کھیلوں کی تقریب ہے۔اولمپک گیمس کی شروعات لگ بھگ تین ہزار سال سے قبل اولمپیا میں ہوئی تھی جو کہ یونان کا جنوب مغربی حصہّ والا علاقہ ہے۔اس وقت ہر سال لگ بھگ 50000لوگ پورے یونان سے اولمپیا میں کھیل کو دیکھنے آتے تھے اور اس میں حصہّ بھی لیتے تھے۔دراصل یہ قدیم گیم ایک مذہبی تہوار کے طور پر بھی منایا جاتا تھا جو کہ خداؤں کے بادشاہ زوز کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔پورا گیم خداؤں کے بادشاہ زوزکے لئے سر شار ہوتا تھااور اس موقعہ پر زائرین زوز کے مندر کو دیکھنے کے لئے بھی جمع ہوتے تھے۔اس مندر کے اندر ایک بہت بڑا سونے اور ہاتھی کے دانت کا بنا ہوا زوز کا بت ہوتا تھا اور لوگ اسے خداؤں کا بادشاہ مان کر اس کی پرستش کرتے تھے۔
اُن دنوں اولمپک میں حصہّ لینے والوں کو جیتنے پر انعام کے طور پر سونا، چاندی اور کانسہ کے میڈل کی بجائے زیتون کے پتوں کا تا ج بنا کر سر پر رکھا جاتا تھا اور اس فاتح کھلاڑی کی واپسی پر اس کے شہر کے لوگ اس کا والہانہ استقبال کرتے تھے۔اس کے بعدلوگ اُن فاتح کھلاڑیوں کو اپنے شہر کا ایک روحانی اور خدا کے قریب انسان ماننے لگتے تھے۔ گیمز شروع ہونے سے قبل قاصدوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ مقدس جنگ بندی کا اعلان کریں اور لوگوں کو امن کا پیغام دیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہر طرح کی جنگیں بند ہوں تا کہ لوگ محفوظ طریقے سے اولمپیا گیمز میں حصہّ لینے کے لئے پہنچیں۔
زمانہ قدیم میں اولمپک گیمز صرف کھیل کے لئے منعقد نہیں ہوتا تھا بل کہ اس دوران جانوروں کی قربانی بھی کی جاتی تھی۔ اولمپک گیمز کے تیسرے روز سو بیلوں کی قربانی دی جاتی تھی اور اسے جلا کر شراب اور روٹیوں کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔جس ٹیبل پر لوگ بیٹھ کر کھاتے تھے وہ کسی لکڑی کا بنا ہوا نہیں ہوتا تھا بل کہ چھ میٹر اونچا ان بیلوں کے بچے ہوئے حصےّ ہوتے تھے جو جلا دیا جاتا تھا۔اُن دنوں اولمپک گیمز میں مرد،کم عمر لڑکے اور غیر شادی شدہ لڑکیاں حصہّ لے سکتی تھی۔ شادی شدہ عورتوں کو اس گیم میں حصہّ لینے پر پابندی عائد تھی۔اگر کوئی شادی شدہ لڑکی چوری چھپے اولمپک گیم میں شامل ہوتی تو اس کی سزا یہ ہوتی تھی کہ اسے پہاڑ پر لے جا کر دھکیل دیا جاتا تھا۔تاہم شادی شدہ عورتیں اولمپیا میں اپنا الگ تہوار مناتی تھی جسے ہیریا کہا جاتا تھا اور یہ خداؤں کے بادشاہ زوز کی بیوی کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔
1896میں سب سے پہلا جدید اولمپک گیمز یونان کی راجدھانی ایتھنز میں منعقد ہوا تھا جس میں دنیا کے تیرہ ممالک سے لگ بھگ 280 کھلاڑیوں نے حصہّ لیا تھا۔یہاں یہ بات بھی بتانا دلچسپ ہے کہ اولمپک کی پہلا میراتھن دوڑ کیسے شروع ہوئی۔ جب یونانی سپاہیوں نے فارسیوں پر اپنی فتح حاصل کی تو انہوں نے شہر ماراتھون سے ایتھنز شہر تک پچیس میل کا سفر طے کر کے اس خوش خبری کو اپنے بادشاہ کو دیا تھا۔ 1924میں میراتھن کی دوری کو بڑھا کر ہمیشہ کے لئے 26میل کر دیا گیا تھا جو کہ آج بھی اولمپک گیمز میں قائم ہے۔
لیکن جب رومن نے یونان کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے اولمپک گیمس کی اہمیت کو بہت حد تک کم کر دیاتھا۔ زیادہ تر رومن اس گیم میں حصہّ لیتے تھے اور غلط طریقے سے مقابلے میں جیت حاصل کر کے اس کا معیار گرا دیا تھا۔اس کے بعد 393 میں شہنشاہ تھیو ڈوسیوس نے اولمپک کی روایاتی چیزوں پر پابندی لگا دی تھی جس سے اس کے جوش و خروش میں کمی آنے لگی۔لیکن اس کے 1500ہزار سال بعد اولمپک گیمز ایک بار پھر پوری شان سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب فرانس کا ایک نوجوان بارون پیئیر دی کوبرٹین (1863-1937)قدیم اولمپیا دیکھنے گیا اور اس نے واپس آکر پیرس میں ایک میٹنگ بلائی۔ 1892میں پیرس کی میں یونین دی اسپورٹس اتھیلیکس کی میٹنگ میں بارون نے اولمپک گیمز کو ترمیم کر کے ہر چار سال پر اولمپک گیمز کو عالمی سطح پر کروانے کی تجویز پیش کی۔1896میں یونان کی راجدھانی ایتھینز میں پہلا جدید اولمپک منعقد ہوا۔افتتاحی تقریب میں تیرہ ممالک سے 280 کھلاڑیوں نے حصہّ لیا اور ان کا استقبال کنگ جورجیوس اول نے ساٹھ ہزار لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔
اُن ہی دنوں میں اولمپک کا جھنڈا بھی تیار کیا گیا جس میں پانچ رنگوں کے گول نشان چنے گئے جو پانچ شمال اور جنوبی امریکہ،ایشیا، افریقہ،یورپ اور آسٹریلیا بر اعظموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ نشان ایک سفید جھنڈے پر بنا ہوتا ہے اور جو سب سے پہلے 1920 میں انٹورپ گیمز میں لہرایا گیا تھا۔اولمپک گیمز کی ترقی اور فروغ کے لئے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ کمیٹی 1894میں پیرس میں بنی اور اس کا ہیڈ کواٹر سوٹزرلینڈ میں واقع ہے۔ابتدائی دور میں اس کے 14 ممبر ہوتے تھے جب کہ اب ان ممبروں کی تعداد بڑھ کر 70 ہو گئی ہے۔تقریباً ہر ممالک سے اولمپک کمیٹی کا ایک ممبر ہوتا ہے جو اپنے ملک میں اسپورٹس کا سفیر ہوتا ہے اور جو اس ملک کے اسپورٹس کے فروغ میں نمایاں رول نبھاتا ہے۔ کمیٹی کے صدر کی معیاد آٹھ سال کی ہوتی ہے اور وہ مزید چار سال کے لئے اپنی معیاد بڑھا سکتا ہے جس کے لئے اسے الیکشن کے ذریعہ منتخب ہونا پڑتاہے۔
ہر ملک میں ان کا اپنا ایک قومی اولمپک کمیٹی ہوتا ہے۔ 1988تک دنیا بھر میں لگ بھگ 167کمیٹیاں تھیں جن کی اہم ذمہ داریاں یہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے ملک کی ٹیم کو اولمپک گیمس میں حصہّ لینے کے لئے تیار کریں۔ اس کے علاوہ اولمپک میں کوالیفائی کرنے کے لئے ہر ملک کے کھلاڑیوں کو ایک خاص ٹریننگ سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد ہی وہ کھلاڑی اولمپک گیمز میں حصہّ لے پاتے ہیں۔
آج تک اولمپک جھنڈا شان سے لہرا رہا ہے۔ جس کی سب سے عمدہ مثال دنیا کے ان کھلاڑیوں کا ہے جو اپنی برسوں کی محنت سے اس تاریخی گیمس میں اپنا لوہا منوانے میں لگے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ٹیلی ویژن پر بھی دن رات اپنی پسند کا میچ دیکھتے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے پسندیدہ کھلاڑیوں کی حمایت بھی کر تے ہیں۔ میں اولمپک گیمز میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور پیرس اولمپک گیمز کے لئے نیک تمناؤں کی دعا ئیں دیتا ہوں۔