You are currently viewing لیبر کی شاندار جیت اور مسلمانوں کی ناراضی

لیبر کی شاندار جیت اور مسلمانوں کی ناراضی

حسبِ توقع برطانیہ کے عام انتخاب میں لیبر پارٹی نے شاندار جیت حاصل کی ہے۔ دراصل آپ اسے یوں کہہ لیجئے کہ برسوں سے پریشان اور بے حال برطانوی عوام نے احتجاجی طور پر کنزرویٹیو پارٹی کے خلاف ووٹ ڈال کر چین کی سانس لی ہے۔

تاہم الیکشن سے قبل ہی حکمراں جماعت کے وزیر اور ایم پی مارے خوف کے اوٹ پٹانگ بیانات دے رہے تھے۔ جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ کنزرویٹیو خیمے میں بھگدڑ مچی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دو نہیں بلکہ درجنوں مرکزی وزیر کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اس بار برطانوی عام انتخاب میں سب سے اہم بات یہ دیکھنے کو ملی کہ ایک، دو نہیں بلکہ کئی چونکا دینے والے ریکارڈ ٹوٹے اور بنے ہیں۔ جیسے پہلے ہندوستانی نژاد منتخب وزیراعظم رشی سونک کی قیادت میں کنزرویٹیو پارٹی نے سب سے شرمناک ہار ہوئی ہے اورکنزرویٹیوپارٹی نے121 سیٹ جیتی ہیں جو کہ تاریخ میں سیٹوں کے لحاظ سے بدترین  کارکردگی ہے۔وہیں کئیر اسٹیمر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے2 41 سیٹ جیت کر شاندار جیت درج کرائی ہے۔ ا

س کے علاوہ لیبرل ڈیموکریٹ پارٹی نے سر ایڈ ڈیوی کی قیادت میں 71سیٹ جیت کر تیسری بڑی پارٹی بن کر ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔گرین پارٹی نے 4سیٹ جیت کر سبھی کو حیرانی میں ڈال دیا تو متنازعہ نائجل فراج  ریفارم یوکے پارٹیی بینر تلے پہلی بار ایم پی منتخب ہوئے ہیں تاہم اس سے قبل نائجل فراج سات بار الیکشن ہار چکے ہیں۔ نائجل فراج کی ریفارم یوکے پارٹی نے چار سیٹیں جیتی ہیں جو کہ ایک حیران کن نتیجہ مانا جارہا ہے۔

لیبر لیڈر کئیر اسٹیمر دوسری جنگِ عظیم کے بعد عام انتخابات میں جیتنے والے صرف چوتھے لیڈر بن گئے ہیں۔ جب کہ یہ لیبر پارٹی کے لیے ایک شاندار رات تھی لیکن بھاری اکثریت سے جیتنے کے باوجود 1997میں ٹونی بلئیر کی قیادت میں لیبر پارٹی کی 419سیٹوں کی جیت کا ریکارڈ نہ توڑ پائی۔لیبر لیڈر نے ہاؤس آف کامنز میں اکثریت کے لیے 326سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ جس سے کنزرویٹیو کی 14

سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔لیبر پارٹی کے سابق لیڈر اور مقبول ایم پی جیریمی کوربن نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ عام لوگوں کے لیڈر ہیں۔ 1983سے ازلنگٹن نورتھ کے ایم پی جیریمی کوربن نے گیارہویں بار جیتنے کے لیے تقریباً نصف ووٹ حاصل کیے۔   جب انہیں لیبر پارٹی نے پارٹی سے نکال دیا اور ٹکٹ نہیں دیا تو انہوں نے پہلی بار آزاد امیدوار کے طور پر جیت حاصل کی اورایک بار پھر پارلیمنٹ پہنچ گئے۔ جیریمی کوربن نے ہمیشہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی اور حال ہی میں  وہ غزہ پر اسرائیل کی بے رحمی اور حملے کی کھل کر مذمت کرتے رہے۔

لیبر پارٹی نے غزہ کے حامی آزاد امیدواروں سے چار نشستیں کھو ئی ہیں اور کئی سیٹوں پر مقابلہ کافی قریب رہا ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ کے بحران کے اثرات نے کئیر اسٹیمر کے متنازعہ بیانات اور اسرائیل کی حمایت سے ہزاروں امن پسند کو مایوس کر دیا تھا۔ جوناتھن اشورتھ جو کہ لیبر پارٹی کے شیڈو کیبنٹ آفس منسٹر تھے انہیں زیادہ تر مسلم آبادی والے شہری علاقوں میں فلسطینی حامی امیدواروں کی حمایت میں اضافے کے سبب سب سے زیادہ سیاسی نقصانات ہوئے۔اشورتھ اپنی لیسٹر ساؤتھ سیٹ سے آزاد امیدوار شوکت آدم سے سے ہار گئے۔ شوکت آدم نے فلسطینیوں کی حمایت میں کھل کر آواز اٹھائی تھی اور جیت کے بعد انہوں نے کہا:”یہ جیت غزہ کے لیے ہے”۔

برطانیہ کے عام انتخاب میں کنزرویٹیو، لیبر، لیبرل ڈیموکریٹ کے علاوہ اسکوٹش نیشنل پارٹی، پلاڈ کیمرو، سین فین، کے علاوہ تقریباً 100چھوٹی پارٹیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ مثلاً جنگ کے خلاف پارٹی، جانوروں کے حقوق، موٹرسٹ کے حمایتی، ابورشین کے خلاف، امیگریشن کے خلاف اور نہ جانے کتنی ایسی پارٹیوں نے مختلف حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑاکئے تھے۔ ان امیدواروں کوالیکشن کے نتیجے اعلان کرتے وقت، انہیں رنگ برنگے لباس یا تحریری بورڈ کے ساتھ اسٹیج پر دیکھا جاتا ہے۔

برطانیہ میں سب سے پہلا براہ راست ٹی وی مباحثہ2010کے عام انتخاب میں ہوا تھا اور اس کی کامیابی کے بعد اسی نوعیت کے مباحث دوبارہ عام انتخاب میں بھی ہونے لگے تھے۔اس بار بھی براہ راست ٹی وی مباحثہ مختلف چینلوں پر نشر کئے گئے۔ وہی نوک جھونک، وہیں سوالات اور وہیں گھسے پٹے جوابات، گویا کہ ہم نے اس بار ٹی وی مباحثہ دیکھنا ضروری ہی نہیں سمجھا۔لیکن تکلیف تو تب ہوئی جب  ان تمام لیڈروں کی فلسطینی جان و مال کے نقصان پر عجیب بے حسی پائی اور جب ان لیڈروں نے صاف کہہ دیا کہ” اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے”  تو میراجی بھر آیا اورسچ پوچھئے میں ان کی بے حسی اور بے رحمی پرکافی ناراض ہوا۔

عام طور پر برطانیہ میں الیکشن چند خاص مسائل پر ہوتا ہے۔جن میں صحت، تعلیم، روزگار،امیگریشن اور ٹیکس اہم ہوتا ہے۔ اس بار بھی تمام پارٹیوں نے طوطے کی طرح رٹ لگائی ہوئی تھی اور تمام پارٹیوں کے جوابات یکساں ہی تھے۔ تاہم لیبر پارٹی کے لیڈر کئیر اسٹیمر کے اس بات سے بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک کے لوگوں میں کافی ناراضی پائی گئی جب انہوں نے امیگریشن کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بنگلہ دیشی جو غیر قانونی برطانیہ میں رہ رہے ہیں انہیں بنگلہ دیش واپس بھیج دینا چاہیے۔ اس کے بعد مشرقی لندن میں ٹاور ہیملیٹس کونسل میں لیبر گروپ کے ڈپٹی لیڈر اور کونسلر سبینہ اخترنے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔بعد میں لیبر لیڈر نے کہا کہ وہ برطانوی بنگلہ دیشیوں کے لیے یقینی طور پر کسی قسم کی تشویش پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔

جب سے اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا ہے تب سے برطانوی مسلمانوں میں ایک بے چینی بلکہ یوں کہہ لیں کہ مایوسی پائی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں بسے مسلمان جتنا اپنے ملک برطانیہ سے محبت کرتے ہیں اتنا ہی برطانیہ کی سیاسی، معاشی، ثقافتی اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جس سے برطانیہ دنیا کو اپنی رواداری اور ہر قوم و مذہب کا ملک کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔تاہم وہیں بہت سارے مسلمان ایسے ہیں جنہیں برطانیہ کی دوغلی پالیسی پر ناراضی کے ساتھ مایوسی بھی ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ دنیا بھر میں جب مسلمانوں کے مسائل در پیش آتے ہیں تووہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتتا ہے۔ اور جس کے نتیجے میں برطانوی مسلمان ناراض اوربے بس ہو کر برطانیہ کی حکومت، جمہوریت، پارلیمنٹ اور سوسائٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جس کی مثال برطانوی گاہے بگاہے مختلف سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے۔

لیکن پچھلے سال اکتوبر سے جب اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے رحمی سے مارنا شروع کیا ہے، تو نہ تو برطانیہ نے انہیں پناہ دینے کی بات کی ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے بلکہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی  جاری رکھی۔ اب ان باتوں سے کیا مطلب نکالا جائے۔ کیا برطانیہ مسلمانوں کی جان ومال کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کا سلوک امتیازی ہوتا ہے؟ یہ سوال برطانیہ میں بسے مسلمانوں سے لے کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں  اٹھتاہے۔ جس کا جواب عام طور پر منفی ہوتا ہے۔اس عام انتخابات نے ظاہر کیا کہ لیبر پارٹی کے خلاف مسلم کمیونٹی کااحتجاجی ووٹ کچھ حد تک کامیاب رہا۔اس کے چند امیدوار روایتی لیبر سیٹوں سے ہار گئے اور انہیں کافی احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لہذااس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ مسلم احتجاجی ووٹ کو لیبر اور کنزرویٹیو اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ جسے انہوں نے انتخابی مہم میں صرف نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کی کھل کر حمایت بھی کی۔

لیکن کیا یہ نتائج برطانوی سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھول دیں گے؟ مجھے نہیں لگتا ایسا ہوگا۔ کیونکہ برطانیہ ہمیشہ سے ہی اسرائیل کا حمایتی رہاہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے یہ ظاہر ہوگیا کہ مسلمانوں کے پاس اخلاقی بلندی ہے۔ وہ غزہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے انسانی ہمدردی کے لیے کھڑے ہوئے اور مجھے امید ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی مظلوم لوگوں کے لیے دوبارہ یہ کام کریں گے۔جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کا لیبر اور کنزرویٹیو پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر ان سیاست دانوں اور سماجی مبصرین کی تنقید کے بر عکس میرا ماننا ہے کہ مسلمان برطانوی معاشرے میں اب بھی اچھی طرح سے شامل ہیں اور تمام معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ برطانوی مسلمانوں کی تیسری اور چوتھی نسل انگریزی بولتی ہے، مقامی فٹ بال ٹیموں کو سپورٹ کرتی ہے، برطانوی ڈیزائنر کپڑے پہنتی ہے اور لذیزفش اینڈ چپس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

مسلمانوں کے احتجاجی ووٹ نے یہ بھی ظاہر کیا کہ مسلمان انسانی مسائل کا خیال رکھتے ہیں اور وہ غزہ میں جاری نسل کشی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار انگریز؟ کیا لیبر پارٹی کے لیڈرکئیر اسٹارمر انسانی حقوق کے وکیل نہیں تھے؟ وہ فلسطینیوں کے قتل و عام پر کیوں نہیں بول سکتے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ دنیا اپنا ضمیر کھو چکی ہے اور بے حس ہوگئی ہے۔ لیکن مسلمان فخر کے ساتھ انصاف اور مہربانی کی اقدار کو تھامے ہوئے ہیں۔ جو کہ ایک قابل فخر لمحہ ہے۔

خیر برطانیہ کو لیبر پارٹی کی حکمرانی اور سر کئیر اسٹیمر، ایک نیا وزیراعظم مل گیا ہے۔ تو کیا برطانیہ کی پریشانیوں اور مسلمانوں کی ناراضی اس سے کم ہوگی؟ مجھے نہیں لگتا کہ فی الحال ایسا کچھ بھی ہوگا کیونکہ مسائل کافی ہیں اور وزیراعظم نا اہل ہیں۔ اس کی کئی مثالیں سر کئیر اسٹیمر نے اپنی لیڈر شپ  سے ثابت کی ہیں۔ تاہم کچھ تبدیلیاں ضرور دکھائی دیں گی۔ لیکن ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھیں گے۔ آپ کو تو یاد ہی ہوگا جب 1997میں لیبر پارٹی ٹونی بلئیر کی قیادت میں شاندار جیت حاصل کرکے بر سر اقدار آئی تھی اور پھر عراق پر حملے اور جھوٹ اور غلط بیانی کی وجہ سے ٹونی بلئیر کو ذلیل و خوار ہو کر استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ کہیں نئے وزیراعظم سر کئیر اسٹیمر کا بھی حال ایساہی نہ ہو۔

Leave a Reply