کچھ عرصے قبل شاید اولمپکس گیمزمیں میری نظر سے اتھیلٹس کا ایک واقعہ گزرا تھا۔ جو یو ں تھا کہ دوڑ کے آخری مرحلے میں جیت کے قریب پہنچنے والے اتھیلٹس کسی وجہ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد اس کے پیچھے دوڑنے والے اتھیلٹس جب زمین پر بیٹھے ہوئے ساتھی کو دیکھا تو وہ رک گیا اور اس نے زمین پر بیٹھے ہوئے اتھلیٹس کو کاندھے کا سہارا دے کر جیت کی لائن تک پہنچا دیا۔
اس منظر کو دیکھ کر پوری دنیا دنگ رہ گئی۔ لیکن وہیں لوگوں نے ہارے ہوئے اتھلیٹس کو خوب سراہا اور اس طرح ہارا ہوا اتھلیٹس لوگوں کا چمپئین اتھلیٹس بن گیا۔کبھی کبھی زندگی میں بہت سارے لوگ اپنی خوشی اور خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کی زندگی میں خوشیاں اور کامیابی لاتے ہیں۔ جس کا ہم سب کو علم بھی نہیں ہوتا۔وہیں مسلمان اکثر اس بات کو کہہ کر اپنا پلّو جھاڑ لیتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہ چلے۔ تاہم اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کامیابی اور خوشیاں پانے والے فرد دینے والے کو بھول کر لوگوں کو اس بات سے گمراہ کرتا ہے کہ فلاں کام ہم نے خود کیاہے اور میں بڑا قابل اور باصلاحیت انسان ہوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ گمراہی کی فضا میں اڑتے اڑتے بہت جلد دھڑام سے زمین پر گر جاتے ہیں اور پھر حج، یا تیرتھ استھان کا رخ کر کے دنیا والوں کے آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اوپر والا سب دیکھ رہا ہے۔
پچھلے دنوں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والا ملک ہندوستان کے عام انتخاب میں ایسا ہی کچھ ہوا۔لمبے عرصے تک چلنے والا عام انتخاب کئی علاقوں، موسم، بھاشن یعنی تقاریر، دعوے اور قیاس آرائیوں کے بعد جب سامنے آیا تو تو ایکزِٹ پول سے لے کر بڑے بڑے پنڈتوں کی ہوا نکل گئی۔بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ان سب کو چپ لگ گئی اور لگتی بھی کیوں نہ۔ بڑے بڑے دعوے، فرقہ وارانہ تقاریر، دہشت اور جھوٹے پروپگنڈے کے تحت ہندوستان کا عام الیکشن مودی اینڈ ٹیم نے 400 سے زیادہ سیٹوں سے جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس اور اس بار ہندوستانی عوام نے مودی اینڈ ٹیم کو جتوا کر بھی ہرا دیا۔
الیکشن کے نتائج آنے سے قبل مجھ سے کئی لوگوں نے لندن براہ راست فون کر کے نتیجے کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے کہا “نتیجہ الٹا ہوگا”۔کچھ تو سن کر خاموش ہوگئے اور کچھ نے مجھ سے بحث بھی کی۔ ظاہر بات ہے کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ مودی اینڈ ٹیم کو اتنی کم سیٹ ملے گی۔ کیونکہ مودی اینڈ ٹیم نے چار سو سے زیادہ سیٹ جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔لیکن میں نے کسی سے بحث کرنے کی بجائے اپنے موقف کوصاف رکھا اور اپنی بات پر اٹل رہا۔ میں نے دلیل کے ساتھ انہیں بتایا کہ کس طرح مودی اینڈ ٹیم کو دھچکا لگنے والا ہے۔
جس ہسپتال میں، میں کام کرتا ہوں وہاں دورانِ لنچ کینٹین میں معروف نیورو کنسلٹینٹ ڈاکٹر اشرف علی نے ہندوستانی الیکشن کے متعلق میری رائے پوچھی۔ انہیں بھی میں نے وہی کہا کہ” نتیجہ الٹا ہوگا”۔ ڈاکٹر علی نے مسکرا کر کہا، ارے فہیم، مودی بہت کامیاب ہے اس نے ملک میں معاشی حالت کو بہت بہتر کیا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں۔ میں نے ڈاکٹر علی سے دلیل کے ساتھ مودی کی ناکامی اور نتیجہ اس کے توقع کے خلاف ہوگا، کی بات رکھی اور ڈاکٹر علی ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ نتیجے کے بعد جب ڈاکٹر اشرف علی سے ہسپتال میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا، “فہیم یو آر رائٹ”۔
خیر ہوا وہی جس کا مجھے یقین تھا۔نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2024کے عام انتخابات میں اپنی اکثریت کھودی ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے)کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لئے کافی نشستیں جیتی ہیں، لیکن یہ اکثریت پچھلے انتخابات کے مقابلے میں کم ہے۔ بی جے پی نے اس بار 240نشستیں حاصل کیں، جو کہ 2019میں حاصل کی گئی 303 نشستوں سے کافی کم ہے۔ تاہم بی جے پی اس بار این ڈی اے کے سہارے 286نشستوں کی وجہ سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ این ڈی اے کے دو اہم حصے دار صوبے بہار کی جے ڈی یو اورآندھرا پردیش کی تیلگو دیشم ایسی اہم پارٹیاں ہیں جن کی وجہ سے مودی کو کچھ پل کے لیے سانس لینے کی مہلت ملی۔ لیکن مودی اینڈ ٹیم اب بھی بد حواس ہے کہ آخر یہ ہوا کیسے۔
مودی کی پارٹی کی ہار کی وجوہات میں ان کی متنازعہ معاشی پالیسیوں، معاشرتی پولرائزیشن، بے روزگاری،کسانوں کے مسائل اور نظر اندازی، شہریت بِل، میڈیا کاتعصب اور طرف داری والا رول اور تانا شاہی نظام کا رویہ ہے جس سے ہندوستانی عوام بد ظن تھے۔ مودی کی حکومت کے دوران ہندوستان میں معاشی نابرابری بڑھی ہے اور جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے مجھے علم تھا کہ ووٹروں میں کافی ناراضی ہے۔تاہم جھوٹے پروپگنڈے کے تحت لوگوں کو گمراہ بھی کیا جارہا تھا جس سے لوگوں میں حیرانی اور بے بسی پائی جا رہی تھی۔
ہندوستان کے عام انتخابات میں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں، خاص طور پر کانگریس پارٹی نے مضبوط مظاہرہ کیا۔ جو 255نشستیں جیتے میں کامیاب رہی۔ یہ نتائج مودی کے لئے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ ان کی پارٹی کو اب حکومت چلانے اور پالیسیوں کے نفاذ کے لئے اپنے اتحادیوں پر ہی زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ جس سے آنے والے دنوں میں حکومت میں دراڑ پڑ سکتی ہے۔ ان باتوں کے علاوہ ہندوستانی الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹنگ کے رحجانات میں کچھ نمایاں تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ ان انتخابات میں مسلمانوں کا زیادہ تر جھکاؤ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف رہا ہے۔ مسلمانوں کا بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کا تناسب کم ہو کر 6فی صد تک آگیا ہے، جو 2019میں 9فیصد تھا۔ دوسری طرف کانگریس کی زیر قیادت انڈیا بلاک کا مسلم ووٹ شئیر 52فیصد سے بڑھ کر 76فیصد ہوگیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ مسلم ووٹرز کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کے لیے حمایت کی وجہ بی جے پی کے مسلم مخالف بیانات اور پالیسیاں ہیں۔ مسلمانوں کی ووٹنگ کے رحجانات میں بھی فرق نظر آیا ہے۔ مثال کے طور پر 2022کے ریاستی انتخابات میں اتر پردیش میں 75سے 79فیصد مسلمان اپوزیشن جماعتو ں کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ یہ رحجانات ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان ووٹرز عام طور پر خصوصاً ریاستی سطح پربی جے پی کی بجائے سیکولر اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔مجموعی طور پر مسلمانوں کا ووٹ 2024کے الیکشن میں زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں کی طرف رہا ہے۔ جو کہ بی جے پی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔خاص طور پر ان حلقوں میں جہاں نتائج کا فرق کم ہو۔
سوشل میڈیا پر سیاسی پنڈتوں اور خاص کر بی جے پی مخالف لوگوں نے اپنی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مودی اینڈ ٹیم کو جیت کے بعد بھی ہار بتایا ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ 400نشستوں کو پار کرنے والے بہروپی اب دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے کی ہمت تو کر رہے ہیں لیکن انہیں اپنے گرنے کا ڈر بھی ہے۔ جہاں تک مخلوط حکومت کے استحکام کا سوال ہے، یہ کافی حد تک اس بات پر منحصر ہوگا کہ بی جے پی کس طرح اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاملات سنبھالتی ہے۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر ہندوستان میں مخلوط حکومتیں مختلف مدتوں تک قائم رہی ہیں۔ جن میں کچھ نے مدت مکمل کی ہے جبکہ دیگر درمیان میں اختلافات کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہیں۔
ہندوستان کے عام انتخابات کے نتائج ہندوستانی جمہوریت کی طاقت اور متنوع سیاسی منظر نامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جہاں ایک دہائی تک مضبوط حکومت کے باوجود اپوزیشن نے اپنی موجودگی کو مضبوط بنایا ہے۔تاہم عوام کی توقعات زیادہ ہیں اور خاص طور پر معیشت، روزگار اور سماجی انصاف جیسے مسائل ایک چیلنج ہے جسے حل کرنا فی الحال ناممکن لگتاہے۔مجموعی طور پر 2024کے انتخابات کے نتائج ہندوستان کی سیاسی صورتحال میں بڑی تبدیلی لائے ہیں۔ جہاں بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلانی ہوگی اور عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے مؤثر پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ جو کہ شاید اتنا آسان نہ ہوں۔
خیر فی الحال ہندوستانی عوام جو بی جے پی کے مخالف ہیں،ہار کر بھی جیت کا جشن منارہے ہیں کیونکہ کئی برس بعد بی جے پی اور ان کے لیڈر مودی کا گھمنڈ ٹوٹا ہے اور انہیں اب حکومت چلانے کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے۔تاہم مجھے ایسا بھی محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مودی کو ذلیل و خوار ہو کر استعفیٰ د ینا پڑے گا اور سیاست سے سنیاس لے کر کسی گوشہ میں پناہ لینے پڑے گی