
اس سال لندن کا معروف اور خاص برین انجوری ہسپتال رائل ہوسپٹل فور نیرور ڈس ایبیلیٹی170سالہ جشن منا رہی ہے۔جس کے لئے سال بھر سے تیاریاں چل رہی تھیں۔ ایک ہفتے کا جشن ہسپتال کے سرسبز لان میں خیمہ لگا کر کیا گیا۔ جس میں رنگا رنگ تقریبات کے ساتھ دماغی چوٹ کے مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار اور اسٹاف نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہسپتال کی بنیاد 31جولائی 1854کو رائل ہسپتال برائے لا علاج افراد کے طور پر رکھی گئی تھی۔ یہ انگلینڈ میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا جس نے ان لوگوں کی دیکھ بھال کی پیشکش کی جو دائمی یا لاعلاج چوٹ یا بیماری میں مبتلا تھے۔ برطانوی طبی اور سماجی تاریخ میں آر ایچ این ہسپتال کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ہسپتال کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایچ این ہسپتال کو ایک چیریٹی ادارے کے طور پر باقاعدگی سے عطیات اور مدد جمع کرنے کی ضرورت تھی۔ ڈیوک آف یارک اور ڈیوک آف ویلنگٹن ہسپتال کے بانی اینڈریو ریڈ کے دوستوں میں سے تھے جنہوں نے ہسپتال کی بھرپور امداد کی اور اس کے علاوہ انگلش کے معروف ناول نگار اور ادیب چارلس ڈِکنز نے بھی ہسپتال کے لیے کافی تعاون کیا۔ چارلس ڈِکنز نے اس وقت ہسپتال کے متعلق لکھ کر بیداری پیدا کی تھی اور کہا تھا کہ” یہ ایک غیر معمولی حقیقت ہے کہ ان لاتعداد طبی چیریٹی اداروں میں لوگوں کی مدد کے لیے کوئی بھی نہیں ہے، جنہیں دوسروں سے سب سے زیادہ مدد کی ضرورت ہے اور جن کو مرنا ہے اورجنہیں ہزاروں کی تعداد میں نظر انداز اوربغیر امداد کے مرنا ہے”۔ (چارلس ڈِکنز:لاعلاج افراد کے لیے کوئی ہسپتال نہیں۔1850)
2015میں مجھے دنیا کا معروف ہسپتال ’رائل ہوسپٹل فور نیرو ڈِس ابی لیٹی‘ میں بطور رجسٹرڈ سوشل ورکر نوکری کی پیش کش ہوئی اور میں نے فخر آفر کو قبول کر لیا۔ رائل ہوسپٹل فور نیرو ڈِس ابی لیٹی کی بنیا د 170سال پہلے ایک پادری انڈریو ریڈ نے رکھی تھی۔ایک عرصے تک ہسپتال کی سرپرست ملکہ برطانیہ الیزبتھ دوئم تھیں۔ہسپتال کا پورا نظام ایک ٹرسٹی کے ذریعہ چلایا جاتا ہے جو لیاقت رکھنے اور اعلیٰ صلاحیت والے لوگوں کی ٹیم پر مشتمل ہوتی ہے۔ہسپتال کے زیادہ تر فنڈ این ایچ ایس یا لوگوں کی امداد اور چیریٹی کے ذریعہ موصول ہوتا ہے۔
دماغی چوٹ ایک ایسا حادثہ ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن مریض کا بہتر ہو جانا ممکن ہے۔اللہ نے انسان کے جسم میں ہر اعضا کو ایک خاص انداز اور مقصد کے تئیں بنایا ہے۔ لیکن دماغ ایک ایسا پیچیدہ اور اہم حصّہ ہے جسے آج تک ڈاکٹر اور سائنسداں سلجھانے میں الجھے ہوئے ہیں۔ شاید اللہ نے دماغ کو نہایت عمدگی سے کارآمد بنایا ہے جس کی بنا پر ہم دنیا میں ہر ایسے کام کرتے ہیں جس سے ہمارا نام اور کام کی خوب ستائش ہوتی ہے۔ لیکن یہی دماغ جب کسی وجوہات کی بنا پر ناکارہ ہوجاتا ہے تو ہم اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دماغ کتنا اہم ہے۔
ہسپتال میں چار یونٹ ہیں جہاں مریض کم عرصے سے لے کر لمبی مدّت تک رہتے ہیں۔ پہلا یونٹ ’ری ہیب‘ کا ہے جہاں مریض تین مہینے سے لے کر چھ مہینے کے عرصے تک رہ کر ری ہیب سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس کے بعد’رویے‘ کایونٹ ہے جہاں دماغی چوٹ سے متاثر وہ مریض رہتے ہیں جن کی دیکھ بھال چوبیس گھنٹے لازمی ہے۔اس کے بعد’وینٹی لیٹر‘ یونٹ ہے جہاں آکسیجن کے سہارے مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔ اور آخر میں طویل مدتی والا یونٹ ہے جہاں ایسے مریض ہوتے ہیں جس کی دیکگ بھال گھروں میں نہیں ہو سکتی ہے یا جن کے رشتہ دار ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے ہیں۔
ہسپتال کے زیادہ تر مریضوں کی دیکھ بھال ڈاکٹر، نرس، سائکلوجسٹ، اسپیچ اینڈ لینگویز تھیراپی، ڈائیٹیشین، اوٹی، فیوزیو تھیراپی،میوزک تھیراپی، اور سوشل ورکر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریضوں کی تفریح کے لئے ہر روز سنیما، گیمس، میوزک شو، آرٹ تھیراپی اور تھیراپی کتے اور بلی کی بھی خدمات کو فراہم کیا جاتا ہے۔عام طور پرجب کسی انسان کودماغی چوٹ کا اثر ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کی جسمانی اعضاء متاثر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ یادداشت اور رویے پر بھی کافی اثر پڑتا ہے۔ دماغی چوٹ کئی طریقے سے ہوتا ہے۔ کار کے حادثے میں، یا گر جانے سے، یا دل کے دورے سے یا مار پیٹ سے بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انفیکشن اور ہائی پوکسس سے بھی ہوتا ہے۔
دماغی ٹیومر ایک ایسا سیل ہے جس سے دماغ میں بڑھنے کی وجہ سے دماغ زخمی ہو سکتا ہے۔ اس کی تشخیص کا پتہ یوں چلتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کو سر میں درد، قے، ذہنی تبدیلی،اور کبھی کبھی چلنے پھرنے، بولنے اور سینسری فنکشن جیسے حالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ Guillain-Barre Syndrome(GBS) ایک ایسا مرض ہے جو بہت کم پایا جاتا ہے اور بہت کم لوگ اس کے شکار ہوتے ہیں۔ اس کے ہونے سے مریض کے ہاتھ اور پاؤں کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ بلڈ پریشر کافی ہائی ہوجاتا ہے اور سانس لینے میں کافی دشواری ہوتی ہے جس سے مریض کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ Multiple sclerosis(MS) ایک ایسا مرض ہے جس سے برطانیہ میں لگ بھگ 100000لوگ متا ثر ہیں۔ زیادہ تر ایسے مریض اپنے گھروں میں رہ کر نرسوں کی مدد سے ان کی دیکھ بھال ہو جاتی ہے۔ تاہم وہ مریض جو بہت لاچار ہوجاتے ہیں ان کے لئے ہسپتال کے وارڈ میں رکھ کر ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور انہیں خاص نیورو تھیراپی دی جاتی ہے۔وہیں پارکنسن ایک ایسا نیرو لی جیکل مرض ہے جس میں مریض کی جسمانی حرکت متاثر ہوجاتی ہے۔ پارکنسن ہونے کی وجہ دماغ کے اس سیل کا خاتمہ ہونا ہے جوایک کیمیکل پیدا کرتا ہے جسے ڈوپامائن کہتے ہیں۔ اس میں مریض کے اعضاء سست ہو جاتے ہیں اور اس کے ہاتھ اور پیر میں کپکپی ہونے لگتی ہے۔
لیکن جب کسی کادماغ شدیدزخمی ہوتا ہے تو وہ یا تو کوما میں چلا جاتا ہے یا اس کی حالت Vegetative State جیسی ہوجاتی ہے جس میں نہ تو وہ کچھ بول پاتا ہے، نا اپنے جسم کے کسی اعضاء کو حرکت دے پاتا ہے۔بعض دفعہ ایسے مریض سانس بھی نہیں لے پاتے ہیں اور ڈاکٹر ان کے حلق میں ایک سوراخ کر کے سانس لینے کو آسان بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مریض کے پیٹ کے نیچے سوراخ بنا کر کھانے کے ٹیوب کو نصب کیا جاتا ہے تاکہ اسے زندہ اور صحت یاب رکھنے کے لئے لگاتار غذا ملتی رہے۔اسپائنل کوڈ کے زخمی ہونے کی وجہ سے انسان کا جسم حرکت کرنا بند کردیا ہے جس سے ایسے مریضوں کو خاص قسم کی سہولیات پہنچا کر اسے اس کی زندگی کو جینے کا حوصلہ دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اسٹروک کے مریضوں کو بھی ری ہیب پہنچا کر اسے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ اپنے طور پر کر سکے اور جسے جینے کا حوصلہ ملے۔
اس کے علاوہ نیرولی جیکل کے اور بھی وجوہات ہیں جیسے Motor Neuro Disease (MND) یا Huntington Disease, Supranuclear Palsy (PSP) ایسی تشخیص ہیں جس میں مریض کو صرف ری ہیب کے ذریعہ چلنے پھرنے کی ہمت دی جاتی ہے۔میں نے ہسپتال میں مریضوں کے لئے ایک خاص انجنئیر کو وہیل چئیربناتے دیکھا ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ مثلاً ایک مریض کو ٹھوری کے ذریعے ویل چئیر کو چلاتے دیکھا ہے۔ اسی طرح مریضوں کے رابطے کے لئے ایک ایسا کمپیوٹر لگا دیکھا ہے جس سے مریض اپنی پلکوں کے ذریعہ حرف کا انتخاب کرتا ہے اور اس طرح وہ لوگوں سے رابطہ رکھتا ہے۔
آج میں نے اپنے ہسپتال کی مختصر تعارف اور زخمی دماغ کی وجوہات کو مختصر طور پر لکھ کر آپ لوگوں کو ان باتوں سے متعارف کرانا چاہا ہے جس سے شاید زیادہ تر لوگ نا آشنا ہوتے ہیں۔ مجھے ان مریضوں کو دیکھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں جو زندگی دی ہے اس کا ہمیں لاکھ لاکھ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک ذرا سی ٹھیس سے انسان کا دماغ جب زخمی ہوجاتا ہے تو اس کو اپنی اصلی حالت میں دوبارہ واپس آنا شاید ناممکن بن جاتا ہے۔جس سے اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رہ جاتی ہے۔
میں نے پچھلے نو برسوں میں مختلف مریضوں اور ان کے پریشان اور شکستہ خورد رشتہ داروں کو دیکھ کر اپنی انا، ہوس،بحث، خودی، ضد وغیرہ کو طاق پر رکھ کر صرف ایک سادہ زندگی گزارنا کا فیصلہ کیاہے۔ میں جمیل مظہری کے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
بہ قدر پیمانہئ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا