You are currently viewing ہندوستان میں وقف بورڈ پر ہنگامہ

ہندوستان میں وقف بورڈ پر ہنگامہ

پچھلے چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر ہندوستان میں وقف بورڈ کے حوالے سے گاہے بگاہے خبریں گشت کر رہی ہیں۔ زیادہ تر لوگ مودی اینڈ ٹیم کو کوس  رہے ہیں اور اس کی سخت مخالفت  ہورہی ہے۔ لوگ بہار اور آندھرا پردیش کی حکومتوں کو بھی لوگ خوب برا بھلا کہہ رہے ہیں جس نے وقف بورڈ کے قانون میں ترمیم میں مودی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔

 وقف بورڈ کا معاملہ مسلمانوں سے منسلک ہے تو اس خبر سے سب سے زیادہ مسلمان ہی برہم اور ناراض ہیں۔وقف بورڈ کے حوالے سے جیسے ہی ہندوستانی پارلیمنٹ میں بل پاس ہو اپھر دوسرے روز ہی مسلمان بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی۔تاہم مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔ورنہ فرقہ پرست طاقتیں تو اسی بات کا انتطار کرتی رہتی ہیں کہ مسلمانوں کے جلوس اور احتجاج میں ذرا سی گڑبڑی مچے اور ہندوستانی پولیس، جسے عام ہندوستانی کا محافظ سمجھا جاتا ہے، اپنی بندوق سے کئی لوگوں کو موت کی نیند سلا دے۔ پھر حکومت کا بیان بھی آجاتا ہے کہ بلوائیوں کو پولیس نے مار گرایا۔

ہندوستان ایک کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی ملک ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ایک بڑی اقلیت کے طور پر موجود ہے، جنہوں نے ملک کی ترقی، ثقافت اور تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔تاہم ملک کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوستان کے بیشتر مسلم حکمراں بشمول مغل بادشاہوں کو طرح طرح سے من گھڑت الزامات لگا کر نئی نسل کو ورغلا یاجارہا ہے تاکہ مسلمانوں کے تئیں نفرتیں اتنی بڑھ جائے کہ مسلمانوں کاہندوستان میں جینا حرام ہوجائے۔

کئی دہائیوں پرانے قانون میں ترمیم کرنے کی تجویز جو ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے صدیوں سے عطیہ کی گئی کروڑوں روپے کی جائیداد وں کو کنٹرول کرتی ہے۔ جائیداد یں، جن میں مساجد، مدارس، شیلٹر ہوم اور ہزاروں ایکڑ اراضی شامل ہیں جو وقف کہلاتی ہیں اور ان کا انتظام ایک بورڈ کرتا ہے۔یہ تو مختصر طور پر وقف بورڈ کی بات ہوئی تو وقف بورڈ کا مسئلہ کیا ہے۔ مودی سرکار نے جو نیا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس میں موجودہ قانون میں چالیس سے زیادہ ترامیم شامل ہیں۔ یہ بل اگست میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے بحث کے لیے اراکین پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ کچھ باتیں ہوئیں اور کچھ بحث، پھر 13فروری کو بل پر کمیٹی کی رپورٹ اپوزیشن رہنماؤں کے احتجاج کے درمیان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی گئی۔

 

 

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں وہ ان جائیدادوں کے انتظام میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلم کمیونٹی کے اصلاحات کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔لیکن کئی مسلم گروپوں اور اپوزیشن جماعتوں نے ان تبدیلیوں کو سیاسی طور پر محرک اور مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کی طرف سے اقلیتیوں کے حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

آئیے جانتے ہیں وقف کیا ہے۔ اسلامی روایت میں وقف ایک خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کمیونٹی کے فائدے کے لیے دیا جاتا ہے۔ایسی جائیدایں کسی دوسرے مقصد کے لیے فروخت یا استعمال نہیں کی جاسکتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وقف جائیدادیں اللہ کی ہیں۔ان املاک کی ایک بڑی تعداد مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور بہت سی دوسری خالی پڑی ہیں یا ان پر تجاوزات ہوچکی ہیں۔ہندوستان میں وقف کی روایت کا پتہ بارہویں صدی میں دہلی سلطنت کے دور سے لگایا جاسکتا ہے جب وسطی ایشیا سے ابتدائی مسلمان حکمران ہندوستان آئے تھے۔تاہم جائیدادیں اب وقف ایکٹ 1995کے تحت چلتی ہیں، جس میں ریاستی سطح کے بورڈ ذ کی تشکیل لازمی ہے۔ ان بورڈذ میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد، مسلم قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، اسلامی اسکالرز اور وقف املاک کے منتظمین شامل ہیں۔

 

 

حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ ہندوستان کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ہیں۔ ہندوستان بھر میں کم از کم 872351وقف جائدادیں ہیں جو 940000ایکڑ سے زیادہ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کی تخمینہ قیمت 1.2 ٹریلین روپے ہے۔ اب آپ سمجھ ہی سکتے ہیں کہ کیوں مودی حکومت قانون میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے۔ممکن ہے وقف بورڈپر حکومت کی براہ راست مداخلت اور دھیرے دھیرے ان جائیدادوں کو بیچ کر وقف کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔یعنی نہ رہے گی بانس نہ بجے گی بانسری۔ تاہم عام لوگوں سے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ وقف کی زیادہ تر جائیدایں مسلمان افسروں نے ہی بیچ ڈالا ہے۔تاہم مسلم گروپ اس بات پر متفق ہیں کہ وقف بورڈ میں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے اراکین پر متعدد بار الزام لگایا گیا ہے کہ وہ وقف اراضی کو بیچنے کے لیے تجاوزات کے ساتھ ملی بھگت کر رہے ہیں۔

جسٹس سچر کمیٹی کی طرف سے 2006میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں جو سابقہ کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی تھی۔ اس رپورٹ میں وقف اصلاحات کی سفارش کی گئی تھی کیونکہ سچر کمیٹی نے اس میں یہ پایا کہ وقف بورڈ سے حاصل ہونے والی آمدنی ان جائیدادوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں کم تھی۔سچر کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ زمین کے موثر استعمال سے تقریباً 120بلین روپے کی سالانہ آمدنی حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔ جبکہ موجودہ سالانہ آمدنی کچھ اندازوں کے مطابق تقریباً 2ارب روپے ہے۔سچر کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ریاستیں جو وقف کی نگہبان ہے، کی طرف سے تجاوزات عام ہیں۔ جس میں سرکاری حکام کے ذریعہ وقف اراضی پر اس طرح کے غیر مجاز قبضے کی سینکڑوں مثالیں درج ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ترامیم ان مسائل کو حل کرتی ہیں اور سچر کمیٹی کی سفارشات کو آگے بڑھاتی ہیں۔لیکن بہت سے مسلمان مجوزہ تبدیلیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ان باتوں کے علاوہ دیگر اہم تبدیلیو ں میں وقف بورڈز کے لیے لازمی شرط ہے کہ وہ اپنی جائیداد وں کا اندراج ضلع کلکٹرکے پاس کریں جو حکومت سے سفارش کریں گے کہ آیا وقف کا جائیداد پر دعویٰ درست ہے کہ نہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے وقف بورڈ کے اختیارات کو نقصان پہنچے گا اور الزام لگایا جارہا ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد مسلمانوں سے ان کی زمین چھیننا ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بہت سے لوگوں نے غیر قانونی طور پر وقف پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔

 عام طور پر کہا جاتا ہے کہ زر، زمین، زن، یہ تین الفاظ صدیوں سے انسان کے باہمی تنازعات، دشمنیوں، جنگوں اور خونریزی کی جڑ رہے ہیں۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زیادہ تر جنگیں، جھگڑے اور فتنہ و فساد انہی تین عناصر کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ تاہم زر، زمین، زن بذاتِ خود فتنے کی جڑ نہیں بلکہ ان کے ساتھ انسان کا رویہ اور نیت ہی اصل فتنہ ہے۔اگر ہم عدل، توازن اور اخلاق کی بنیاد پر ان سے تعلق رکھیں تو یہی تین چیزیں فتنہ نہیں بلکہ رحمت بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر ان پر قبضہ، لالچ اور تسلط کی نیت ہو تو تباہی یقینی ہے۔

آئے دن کبھی مندر مسجد، تو کبھی تین طلاق اور اب وقف کی جائیداد قانون میں ترمیم کر کے ہر بار کی طرح مسلمانوں کے جذبات کو ایک بار پھر ٹھیس پہنچا ئی گئی ہے۔جس سے ہندوستانی مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے لوگ کافی برہم اور ناراض ہیں۔ تاہم ہمیں اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ ہماری بے بسی اور  خواریکی ایک وجہ ہمارے مفاد پرست رہنما اور بے ایمان آفیسرہیں جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو احمق بنا کر اپنا الّو سیدھا کیا ہے۔ جس سے لوگوں میں کافی ناراضی ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان اپنی نادانی، بے ایمانی، ناسمجھی اور کمزور رہنمائی کی وجہ سے ذلیل و خار ہورہے ہیں اور ہم بے بس اور لاچار صرف اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں۔

Leave a Reply