You are currently viewing گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا

گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا

اٹھارویں صدی میں غالب نے کہا تھا کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب،گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا۔ اب یہ تو علم نہیں کہ غالب نے اُس وقت اس شعر کو کیوں اور کس کے لیے کہا لیکن امریکی الیکشن میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس شعر کو دہرا دیتے تو ہم اردو والے واہ واہ کی بجائے عش عش کرتے اور اردو کی ترقی پر ناز کرتے۔

 تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خوب گالیاں سنی اور کھائی اس کے علاوہ گولی بھی ان کو کان کو چھو کر نکل گئی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ڈٹے رہے اور ایک بار پھر امریکہ کے 47ویں صدر بن گئے۔ 5نومبر کو دنیا کی نظر امریکہ کے الیکشن پر ٹکی ہوئی تھی کیونکہ یہ الیکشن کئی معنوں میں اہم اور چونکا دینے والا مانا جا رہا تھا۔اس کی ایک اہم وجہ دونوں امیدوار تھے۔ایک طرف دولت کادیوتاریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تو دوسری طرف نائب صدر کاملا ہیرس تھیں۔لیکن جس کا ڈر تھا وہی بات ہوئی یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا صدارتی الیکشن ایک بار پھر جیت لیا جس کا شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو خود بھی یقین نہ تھا۔ 78سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ایک بار پھر امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ ان کی فتح اہم ریاستوں جیسے جارجیا، پینسلوانیا، وسکونسن، اور مشہ گن ہیں جہاں کی جیت کے بعد صدر بننا ممکن ہواہے۔ جس سے انہیں 295 الیکٹورل ووٹ ملے۔

جب سے ڈولنلڈ ٹرمپ پچھلا الیکشن ہارے ہیں تب سے ان کے بارے میں مسلسل کچھ نہ کچھ خبریں اخبارات میں شائع ہورہی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے  نامزدگی سے قبل ہی اپنے حماتیوں کو ورغالنے لگے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایک بار پھروہی راگ الپنے لگے کہ وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو وہ سب سے پہلے پناہ گزین کے امریکہ داخل ہونے پر پابندی لگا دیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ کو گریٹ امریکہ بنائیں گے۔بس کیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ کی ان زہر افشاں باتوں سے شدت پسند اور حا میوں کا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور وہ اپنی جی توڑ کوشش میں لگ گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ امریکہ کا صدر بناکر ہی رہیں گے۔

دوسری طرف ڈیموکریٹ کی امیدوار کمالا ہیرس تھیں جنہوں نے اپنے الیکشن کی مہم کا آغازاپنی پالیسیوں اور امریکہ کو مزید مضبوط بنانے کے وعدے سے شروع کیا جسے زیادہ تر لوگوں نے سراہا اور امید ظاہر کی  کہ وہ امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون صدر بن جائیں گی۔ جو کہ امریکہ کے لئے ایک تاریخی بات ہوتی۔لیکن بیچاری کاملا ہیرس کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور وہ تاریخ رقم کرنے میں ناکام رہیں۔

 جب نتیجہ سامنے آیا تو امریکہ تو حیران ہوا ہی دنیا بھی پریشان ہو کر رہ گئی۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زہر افشاں تقاریر اور جارحانہ رویّے سے دنیا کی امن پسند سیاستدان اور عوام پہلے سے ہی خوف زدہ تھے اوران کی جیت سے لوگوں میں اور بھی خوف بڑھ گیا ہے۔ہر کوئی اس بات کا انتطار کر رہا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی سے دنیا میں امن قائم ہوگا یا حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ویسے پچھلی بار جس طرح آناً فاناً میں انہوں نے ایران پر اقتصادی پابندی اورزیرو شلم میں اسرائیلی سفارت خانہ کو منتقل کیا تھا۔ اس سے تو آپ بھی واقف ہیں۔تاہم لوگ اب بھی سہمے ہوئے ہیں کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیں گے؟ کیا ان کا رویّہ واقعی مسلمانوں کے تئیں جارحانہ ہوگا؟کیامسلمانوں کے مزید ممالک میں خانہ جنگی جیسی صورتِ حال پیدا ہوجائے گی؟ کیا وہ امن کی بات کو چھوڑ کر دنیا کو تیسری جنگِ عظیم میں الجھادیں گے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو ہر عام انسان کے ذہن میں گھوم رہے ہیں اور خوف اور الجھن میں لوگ صرف وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ایک بار پھر اپنی امیدواری  کا اعلان کیا تھا تو زیادہ تر لوگوں کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ وہ ایک بار پھر امریکی صدر بن جائیں گے۔تاہم دھیرے دھیرے ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت بڑھنے لگی اور کان میں گولی کھانے سے لے کر جو بائیڈن سے کامیاب بحث اور ان کے منفرد انداز اور جارحانہ رویے نے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا شروع کردیا تھا۔ آخر کار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جارحانہ اور شدت پسندی سے نہ ہی تو  امریکہ کا الیکشن  جیت لیا۔

78 سالہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کا ایک امیر ترین اور رنگین مزاج کا آدمی ہے اور پیشے سے تاجر ہے۔ ان کے والد فریڈ ٹرمپ امریکہ کے ایک نامی گرامی اور امیر ترین ریئل اسٹیٹ کے مالک رہ چکے ہیں۔ خاندانی دولت مند ہونے کے باوجود شروع دور  ڈونلڈٹرمپ اپنے والد کی کمپنی میں کم تنخواہ کی نوکری پر فائز تھے۔13 سال کی عمر میں اسکول میں لاپرواہی اور ناجائز حرکتوں کی وجہ سے انہیں ملٹری اکیڈمی میں داخل کر دیا گیا تھا۔ بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے وارٹن اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنے والد کے کاروبار میں حصہّ لینے لگے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بھائی جن کا 43 سال کی عمر میں شراب کی لت سے انتقال ہوگیا تھا، کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ ہی انہیں سگریٹ نوشی کی عادت ہے۔1971میں وہ اپنے والد کے کمپنی کے انچارج بن گئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی زندگی ان کے لئے مشعلِ راہ ہے جن کا انتقال 1999میں ہوا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ریئل اسٹیٹ کے کا روبار کا آغاز ایک ملین ڈالر سے  کیا تھا جو انہوں نے اپنے والد سے قرض لیا تھااور انہوں نے اپنے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں خوب ترقی کی۔نیو یارک کا 68 منزلہ ٹرمپ ٹاور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ پلیس، ٹرمپ ورلڈ ٹاور، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اور نہ جانے مزید کتنی عمارتیں پوری دنیا میں ٹرمپ کی ملکیت ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے تین شادیاں کی ہیں۔ ان کی پہلی بیوی جن کا نام ایوانا زیلنیکواہے جو کہ ایک اتھیلیٹ اور ماڈل تھیں۔ ان کا تعلق چیک ری پبلک ملک سے تھااور1990میں ایوانا کو طلاق ہو گئی۔اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے معروف اداکارہ مارلا میپلس سے 1993میں دوسری شادی کی تھی جسے انہوں نے 1999میں طلاق دے دی۔2005میں دونلڈ ٹرمپ نے میلانیا کناوس سے تیسری شادی کی جو کہ ایک معروف ماڈل تھیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ معروففوربس میگیزین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس  چار ارب ڈالر کے لگ بھگ اثاثے  ہیں۔اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ ان کے پاس دس ارب ڈالر  کی املاک ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکہ کے 47واں صدر بنیں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے جہاں دنیا کے امن پسند لوگ سکتے میں ہیں وہیں ماہرین سیاستدان الجھن میں ہیں کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک کاروباری ہیں اور یہ اندازہ لگا نا مشکل ہورہا ہے کہ جب جنوری میں دونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر کا حلف لیں گے تو ان کا پہلا قدم کیا ہوگا۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سارے فیصلے اپنی ٹیم سے صلاح و مشورہ کے بعد ہی کرنے ہو ں گے جو کہ اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ کیونکہ پورے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے تن تنہا اپنی مہم چلائی تھی اور زیادہ تر ماہر ریپبلیکن سیاستدانوں نے ان سے دوری بنائے رکھی تھی۔ سب سے اہم مسئلہ روس اور یوکرین کی جنگ کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ ہے جو کہ کافی پیچیدہ ہے اور اس کا کوئی حل فی الحال نظر نہیں آرہا ہے۔

ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران امریکہ کی سیاسی اور سماجی صورت حال میں خاصی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ انہوں نے اپنے الیکشن مہم میں امیگریشن پر سخت اقدامات، غیر ملکی تجارت پر مزید ٹیکس اور ماحولیات کے حوالے سے قواعد میں کمی کا عندیہ دیا تھا۔ مزید بر آں، انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔ جس سے سیاسی تقسیم اور بڑھنے کا امکان ہے۔کانگریس میں ریپبلیکنز کی برتری نے ٹرمپ کو قانون سازی اور عدالتی تقرریوں میں آسانی فراہم کی ہے۔ جس سے ان کے ایجنڈے کو تقویت مل سکتی ہے۔ اس تبدیلی کا اثر امریکی معاشرت، سماجی اور اقتصادی پالیسیوں پر خاص کر واضح ہوگا۔

اب دیکھنا یہ ہے کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران جو باتیں کہی تھیں وہ محض الیکشن میں کامیاب ہونے کے لئے کہی تھیں یا وہ اس پر عمل در آمد بھی کریں گے۔ اگر انہوں نے اُن باتوں پر عمل کیا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ایک بار پھر انتشار اور بے چینی  پھیل جائے گی اور ہم شاید پھر امن اور چین کی نیند نہیں سو پائیں گے جیسا کہ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے پر ہواتھا۔خیر فی الحال ٹرمپ ضرور غالب کے شعر کو دہرا رہے ہوں گے کہ، کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب،گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا۔۔۔

Leave a Reply