You are currently viewing کمرشل مشاعرے اور شعری روایت

کمرشل مشاعرے اور شعری روایت

مشاعرہ ایک ایسا فورم ہے جس میں شاعر اپنے دل کے تار چھیڑتا ہے اور سامعین مسرور ہوتے ہیں۔ تاہم اس محفل میں سب سے اہم چیز شاعر نہیں بلکہ صدرِ مشاعرہ ہوتا ہے۔

شاعر تو اپنی غزل پڑھ کر نکل جاتا ہے مگر صدر بیچارے کو آخر تک کرسی پر بٹھا کر ثابت کیا جاتا ہے کہ” برداشت” بھی ایک فن ہے۔ صدارت کا انتخاب بھی عجیب ہوتا ہے۔ صدر وہی بنتا ہے جس کے پاس سب سے زیادہ سفید بال ہوں۔ بعض اوقات صرف اس لیے بھی صدارت سونپ دی جاتی ہے کہ “یہ بندہ زیادہ بول نہیں سکتا، سو محفوظ رہے گا “۔ مگر اکثر صدر صاحب ایسے نکلتے ہیں کہ اپنی تقریر میں وہ سب کچھ بیان کردیتے ہیں جو آج تک شاعری میں بیان نہیں ہوا۔

مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے صدر صاحب کی کرسی ایک مقدس تخت کی طرح سجائی جاتی ہے۔ جیسے ہی وہ بیٹھتے ہیں، سب شاعروں کو لگتا ہے کہ آج ان کی شاعری قبول ہوگئی ہے۔ اور صدر صاحب کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ سنجیدہ رہیں تو لوگ کہتے ہیں “صدر بور کررہا ہے” اور مسکرا دیں تو لوگ کہتے ہیں “صدر نے ہماری شاعری اڑا دی”۔ شاعر کی غزل بھلے دو مصرعوں پر ختم ہو، مگر صدر کی تقریر کا کوئی “ردیف” اور” قافیہ” نہیں ہوتا۔ یوں تو مشاعرہ ختم ہوتا ہے، شاعر خوش، سامعین تھکے ہوئے اور صدر صاحب اس سوچ میں ڈوبے کہ اگلی بار اگر صدارت کی دعوت ملی تو وہ بہانے سے کہیں گے، معاف کیجیے، میں تو سننے آیا تھا!۔

23 اگست کو بزمِ اعظم گڑھ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ ہندوستان سے بڑے بڑے نامی شعرا کو بلایا گیا۔ لندن کی مصروف زندگی سے کچھ پل کے لیے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے حامی بھر لی۔ کلکتہ سے معروف شاعر و ادیب پرویز اختر کی شمولیت سے میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے علاوہ کانکی نارہ کے شاعری کے ذوق رکھنے والے شیخ غلام عامر نے بھی مشاعرے میں شرکت کے لیے شارجہ پہنچے۔

شارجہ کی تپتی ہوئی دھوپ نے ایک لمحے کو میرا حوصلہ کمزور کر دیا، جو لندن کی سرد ہواؤں کے برعکس تجربہ تھا۔ تاہم ہم بھی مشاعرے میں شرکت کے لیے پرجوش تھے اور دنیا بھر سے بلائے گئے معروف شعرا سے ملنے اور ان کی غزلیں سننے کے لیے بیتاب تھے۔ حسن کاظمی، جوہر کانپوری، شکیل اعظمی، شبینہ ادیب، حامد بھسولی، افضل منگلوری، پرویز اختر، میکش اعظمی، حمیرا گل تشنا وغیرہ کی موجودگی سے ہزاروں کی تعداد میں پہنچے سامعین کا جوش و خروش کافی بڑھ گیا۔ مشاعرے کی نظامت جناب معروف رائے بریلوی نے کی اور رات ساڑھے نو بجے مشاعرے کا آغاز ہوا۔ ہماری طرح تمام شعرا اس بات کے منتظر تھے کہ حسبِ معمول گلدستہ اور مومینٹو سے ان کا استقبال ہوگا۔ مگر کیا بتائیں شاید منتظمین یا تو بھول گئے یا وہ ہندوستان سے ہندی میڈیم شاعرہ کی آؤ بھگت میں اتنا مصروف رہے کہ انہیں دیگر شعرا اور اسٹیج پر موجود مہمانوں کا استقبال کرنا، یاد ہی نہیں رہا۔ اور اگر صدرِ مشاعرہ کی بات کریں تو بس میں تو ایک کرسی پر براجمان تھا جس پر انگریزی میں صدر مشاعرہ لکھا ہو اتھا۔ جس سے میرا حوصلہ بھی بلند ہوا اور مجھے لگا چلو کچھ نہ سہی تو میری کرسی نے ہی میرا استقبال کر دیا۔

پھر ہم پانچ گھنٹے تمام شعرا کو سنتے رہے اور ان کی جسمانی قوت کی زور سے ان کی شاعری سے محظوظ ہوتے رہے۔ جس کی وجہ سے کچھ خوف بھی ہوا اور سہما سہما سا بھی رہا۔ ایک کے بعد ایک شاعر آتے اور اپنی اداکاری سے سامعین میں ایسا جوش ڈالتے کہ ایسا لگتا تھا کہ مشاعرہ نہیں بلکہ بلڈ پریشر ہائی کرنے کی مشق ہورہی ہے۔ میں بھی سہما سہما ان شعرا کی شاعری سے بحالتِ مجبوری واہ واہ کرتا، تاہم ان کے جوشیلے اور بھڑک دار انداز سے خوف بھی کھاتا رہا۔ عموماً بیرونی ممالک میں جب بھی کوئی مشاعرہ ہوتا ہے تو وابستگانِ اردو جو ذریعہ معاش کے لیے ان ممالک کو وطنِ ثانی بنائے ہوئے ہیں، وہ اپنی تشنگی مٹانے کے لیے ان مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں اور زبان وادب سے وابستگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ جو کہ قابلِ ستائش ہے اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے احسن کاوش ہے۔ شارجہ مشاعرے میں بھی اعظم گڑھ کے بسے ہوئے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرکے مشاعرے کو کامیاب بنانے میں نمایاں رول نبھایا جس کے لیے وہ مبارک  باد کے مستحق ہیں۔

لیکن اہلِ نظر میں سے بیشتر دانشور یہ بھی کہتے ہیں کہ مشاعرے کا اہتمام کرنے والے زیادہ تر منتظمین ادب دوست نہیں، کاروباری ہیں۔ اس ضمن میں میں جب غور کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب اور زبان کے نام پر جس طرح کے اشتہارات سامنے آتے ہیں اور مختلف اداروں کے منتظمین مختلف اسپانسروں سے تعاون حاصل کرتے ہوئے مالی طور پہ ادارے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، تو ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ مشاعرے کا انعقاد کیا ادب کو فروغ دینے کی سنجیدہ کوشش ہے یا پسِ پردہ مالی تعاون حاصل کرنا ہے۔ ادارے کے منتظمین صرف مشاعرے پہ انعقاد پر ہی  اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد بھی تاریخی، گرانڈ، عظیم، یادگار، بے مثال مشاعرہ وغیرہ لکھ کر مسلسل شور مچاتے رہتے ہیں اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ انہوں نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

میں ایک عرصے سے ذہنی طور سے اس تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح فرصت سے آج کل کے مشاعروں کے بارے میں چند دلچسپ حقائق کا انکشاف کروں۔ حقیقتاً دنیا کے اتنے مسائل ہیں کہ مشاعرے کے حوالے سے لوگوں سے بات تو ہوتی ہے تاہم باقاعدگی سے اس پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں ہو پاتی۔ پھر سوچا کہ آخر کیوں نہ دنیا بھر میں بکثرت ہو نے والے مشاعروں کی رسم و تہذیب اور معائب و محاسن پر اردو زبان و بیان کے حوالے سے کسی بحث کا آغاز کیا جائے۔ شاعری اردو زبان کی وہ مرغوب صنف ہے جس سے ہر عمر، مذہب اور زبان کے بولنے والے دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً سبھی اہلِ قلم اپنی زبان میں صنفِ شعر وسخن میں خامہ فرسائی کرتے ہیں جن میں ایسے بھی صاحبِ سخن ہیں جو ا پنے گردو پیش کے سیاسی اور سماجی مسائل کو اپنا موضوعِ سخن بنا تے ہیں۔ جو نہ صرف حسن و عشق بلکہ سماجی ظلم و جبر اور نا انصافیوں کے خلاف سیاسی احتجاج کو بھی اپنا موضوعِ سخن بناتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری عصرحاضر کے تمام اردو زبان کے شائقین میں مقبول ہے۔ ہندوستان، پاکستان کے علاوہ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یورپ، ترکی، مشرق وسطیٰ سمیت نیپال، بنگلہ دیش وغیرہ ممالک میں بھی اردو شعرو سخن کی پزیرائی ہو تی ہے جو اردو زبان کے فروغ و مقبولیت کی بجا طور پر ضامن ہے۔ اردو کے نو آباد ملکوں میں برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جسے ایک عرصے تک “اردو کا تیسرا مرکز” کہا جاتا رہا ہے۔ یہاں دیارِ مغرب کے اردو شعرا میں ساقی فاروقی، بخش لائل پوری، اکبرؔ حیدرآبادی، خالدؔ یوسف، رفعت شمیم، ڈاکٹر عبدالغفار عزم، ڈاکٹر جمال سوری، باسط ؔکانپوری، فاروق حیدر، غالب ماجدی، امجد مرزا وغیرہ ایسے اہم نام ہیں جو تعارف کے محتاج نہیں۔ اردو زبان کے فروغ اوراس کی شناخت میں ان کا یقیناً قابلِ قدر حصہ رہاہے۔ افسوس کہ ان میں سے چند ادیب و شاعر رفتہ رفتہ ہم سب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے جس کے سبب مشاعروں کی رونق ماند پڑ گئی۔

تاہم اب بھی مشاعروں کا سلسلہ ہنوز جا ری و ساری ہے۔ لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے دُکھ ہو تا ہے کہ مجموعی طور پر شرکائے مشاعرہ کی کی تعمیری، تہذیبی اور ثقافتی قدریں دم توڑ گئی ہیں۔ مہذب انداز سے سے دادو ستائش کی بجائے سوقیانہ لب و لہجے میں تالیوں کے ساتھ واہ واہ کا طوفانِ بد تمیزی اکثر دیکھنے سننے میں آ تا ہے اور ہمارے اردو کے نو سکھیے نوجوان تو اب سیٹی بجاکر بھی داد وینے سے باز نہیں آ تے۔ سچ پوچھیے تو میں حتی الامکان اسی خوف سے مشاعرے میں شریک ہو نے سے گریزکرتا ہوں۔ بلا شبہ برِ صغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا بھرکے چند دیگرممالک میں بھی آج ہماری اردو شاعری ا ردو زبان کے شائقین کی ثقافت کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ اردو کے کئی معروف شعرا کے اشعار آج بھی لوگ گنگناتے ہیں اور محظوظ ہو تے ہیں۔ جن میں میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ، ابراہیم ذوقؔ، داغ دہلوی، میر انیسؔ، میر دبیرؔ، علامہ اقبالؔ، جوش ؔملیح آبادی اور کئی مقتدر شعرا ہیں جن کا کلام آج تک لوگ پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔ اور دنیا بھر کے اخباروں اور اردو رسالوں میں ان کی شعری تخلیقات منظرِ عام پر گاہے بگا ہے نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔

لیکن افسوس ہے کہ اب اردو شاعری نے بڑی حد تک کمرشل صورت اختیار کرلی ہے۔ یعنی شعرا کو منہ مانگی اجرت دے کر مشاعرے میں بلایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی مزدور کو اس کی محنت کے صلے میں اس کی اجرت دی جاتی ہے اور طرہ اس پر یہ کہ سننے والے حضرات داد دینے کی بجائے تالی اور سیٹی بجا بجا کر شاعر کی پزیرائی کرتے ہیں۔ حیرت تویہ سن کر ہوتی ہے کہ جب چند بڑی بڑی ایونٹ کمپنیوں نے مشاعرے کرانے کی بدعت اختیار کی۔ تو بس جناب پھر کیا تھا، مراثیوں سے لے کر متشاعروں کا ایک جم غفیردبئی مال کمانے کی غرض سے باہر نکل پڑا۔ جس کی ایک مثال یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ جہاں چند شعرا کے ساتھ خاتون شاعرہ کو بھی بلا کر مشاعرے میں پڑھوایا جاتا ہے اور داد دینے والے نوجوانوں نے سخن فہمی کی بجائے شاعرہ کی خوبصورت شکل پر سیٹیوں اور بے ہنگم جملوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو مشاعرے کا معیار اب زوال پزیر نظر آرہا ہے۔ یعنی اتنے شعرا اب شاعری میں گل افشانی فرما رہے ہیں کہ سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اس بھیڑ میں کون صحیح معنوں میں شاعر ہے۔ اب تو عام طور سے سنجیدہ اور معیاری شاعری کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔ سامعین کی اچھی خاصی تعداد شاعری سمجھنے کی بجائے خواتین شاعرات کی بے سر پیر کی شاعری پر مر مٹتی دکھائی دیتے ہیں۔ یوں کہیے تخیل سرے سے نا پید ہے، محض الفاظ بندی کو ترجیح دی جا تی ہے۔ سوشل میڈیا پر جس طرح نئے پرانے شعرا آئے دن تعارف ہورہے ہیں، اس سے بہر حال یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ اردو ادب میں جتنے شعرا ہیں شاید اتنے کسی اور زبان میں نہیں ہیں۔ لیکن وہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ شعرا کی اس قدربہتات کہیں اردو فکر و ادب کے لیے غیر ِافادی نہ ثابت ہو۔ کیوں کہ اس خدشے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں فکرسخن کی تعمیری مقبولیت کوتاجرانہ معیار پر پرکھا جانے لگا ہے۔ یعنی جو شاعر جتنی تعداد میں مشاعروں میں بلایا اور پڑھوایا جاتا ہے، وہ اسی قدر ممتاز و اعلیٰ شاعر شمار کیا جا تا ہے۔

ان نا مُساعِد حالات میں بھی بہر حال وہ تمام شعرائے اردو جنہوں نے اپنی شعری تخلیقات سے نہ صرف اردو زبان کے فروغ اور اس کی نشو و نما میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ بلکہ اپنے فکر و فن اور ادبی کاوشو ں سے اردو زبان کی مقبولیت میں اضا فہ کیا ہے، وہ سب صد لائقِ تعریف ہیں۔ تاہم اگر کمرشل مشاعروں کی یہی صارفانہ روش قائم رہی تو اردو کے صحت مند تعمیری مستقبل کے لیے یہ بد شگونی ثابت ہوگی۔ پھر شاید ہر کوئی متشاعر کسی سے لکھوا کرایک بھاری بھر کم لفافے کے عوض اردو شاعری کے ساتھ بد دیانتی اور ناانصافی کرے گا جومستقبل میں ایک نہایت ہی افسوس ناک انجام کا پیش خیمہ ہوگی۔

Leave a Reply