قرآن میں سورۃ آل عمران:186، میں کُلُّ نَفسِ ذَائقِتہُ الموتِ کا ذکر ہے۔ جس کے معنی ہے کہ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقررفرما دی ہے اور اس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔
حضرت انس بن مالک، بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین پر کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا۔ یہ انسان کی امیدیں ہیں اور یہ انسان کی اجل یعنی موت ہے۔ انسان ابھی امیدوں میں مشغول ہوتا ہے کہ یہ لکیر یعنی موت،انسان کو آلیتی ہے۔(صحیح بخاری)
عام طور پر ہم اپنی زندگی اور لوازمات میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا،زندگی اور موت کیا ہے۔اگر دیکھا جائے تو زندگی ایک ننھا سا دیا ہے جو ہوا کے ایک جھونکے سے بجھ جاتی ہے۔تاہم موت کا نام سن کر ہم پر ایک ہیبت سی طاری ہوجاتی ہے۔تبھی تو ہم کچھ لمحے کے لیے کسی کی موت پر سہم جاتے ہیں اور غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر اپنی زندگی میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ ہمیں خود یاد نہیں رہتا کہ موت سے کس کو رستگاری ہے۔ آج وہ،کل ہماری باری ہے۔
رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی رہنما پوپ فرانسس تقریباً 1300سالوں میں پہلے غیر یورپی پوپ تھے جن کا ایسٹر منڈے یعنی پیر 21 اپریل کو انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر 88برس تھی۔ فرانسس امریکہ یا جنوبی نصف کرہ کے پہلے پوپ تھے۔ ملک شام میں پیدا ہونے والے گریگوری تھرڈ جن کا 741 میں انتقال ہواتھا،کے بعد پوپ فرانسیس صدیوں میں پہلے غیر یوروپی پوپ تھے۔ پوپ فرانسس ارجنٹائن میں پیدا ہونے والے جارج ماریو برگلیو کو پچھلے مہینے ایک انفکشن کے پانچ ہفتوں کے علاج کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ انہیں نمونیا ہوا تھا۔
پوپ فرانسس نے اپنے آخری ایام چرچ کی خدمت میں گزارے۔ مسیحی تقویم کے اعلیٰ مقام ایسٹر کی تقریبات میں انہوں نے جتنا ہوسکتا تھا شرکت کی۔ تاہم ان کی طبیعت کئی مہینے سے ناساز تھی اور صحت دن بدن گرتا جارہا تھا۔ویٹیکن کا پوپ کی موت کا اعلان بہت سے لوگوں کے لیے صدمے کے طور پر آیا۔جو پوپ کے عوام میں ایک اعلیٰ سطحی ظہور کے ایک دن سے بھی کم وقت میں آیا ہے۔ان کی موت ویٹیکن کے ایسٹر سنڈے کے اجتماع کے لیے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں ہزاروں کیتھولک زائرین کے جمع ہونے سے پہلے ایک مختصر ظہور کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔
پوپ کا آخری عوامی ظہور ایسٹر سنڈے کو تھا، جب انہیں اپنی وہیل چئیر پر سینٹ پیٹرز باسیلیکا کی بالکونی سے ہجوم کو خوش کرنے کے لیے ہاتھ لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنے مختصر پیغام میں کہا کہ” پیارے بھائیو اور بہنوں ایسٹر مبارک ہو”۔ اپنے ایسٹر کی برکات میں، جو ایک پادری ممبر نے دی، اس نے کہا:” مذہب کی آزادی، آزادی فکر، آزادی اظہار اور دوسروں کے خیالات کے احترام کے بغیر امن نہیں ہوسکتا”۔
پوپ فرانسس کی موت نے سوگ کا ایک دور شروع کیا، جس کے بعد 80سال سے کم عمر کے تمام کارڈینلزکیتھولک چرچ کے اگلے رہنما کو منتخب کرنے کے لیے جمع ہوں گے۔ عام طور پر نئے پوپ کے انتخاب میں دو سے تین ہفتے لگتے ہیں۔ جب تک کہ نئے پوپ کا انتخاب نہیں کیا جاتا،چرچ کی حکمرانی اب کالج آف کارڈینلز کے ذریعہ سنبھالی جائے گی، جو کہ اس کے اعلیٰ ترین عہدیدار ہیں۔اس وقت 252کیتھولک کارڈینلز ہیں، جن میں سے 138نئے پوپ کو ووٹ دینے کے اہل ہیں۔
پوپ جو روم کے بشپ اور کیتھولک چرچ کے سر براہ تھے۔ 2013میں اپنے پیشرو بینیڈکٹ سولہویں کے مستعفی ہونے کے بعد پوپ بنے تھے۔پوپ فرانسس کو حالیہ برسوں میں صحت کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے اس سال فروری اور مارچ میں نمونیا ہونے کی بنا پرہسپتال میں 38دن گزارے تھے۔تاہم پوپ فرانسس کی صحت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی اور وہ عوامی تقاریب میں بہت کم دکھائی دے رہے تھے۔پوپ فرانسس 22فروری سے ایک طویل سانس کی تکلیف کے بعد تشویشناک حالت میں تھے جس کے لیے آکسیجن کے زیادہ بہاؤ کی ضرورت تھی۔ انہیں گردے میں بھی خرابی پائی گئی تھی جس سے ان کے حالت مزید خراب ہوگئی تھی۔اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرنے کے لیے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں جمع ہوئے تھے۔
1936میں پیدا ہوئے، پوپ فرانسس جنوبی امریکہ کے پہلے پوپ تھے۔ ان کی پوپ کا نشان، جنگ اور بھوک سے بھاگنے والوں کے ساتھ غربت میں رہنے والوں کی چیمپئیننگ کے ذریعہ نشان زد کیا تھا۔ جس نے انہیں ” پیپلز پوپ” کا اعزاز دلایا تھا۔2016میں پوپ نے روم کے باہر ایک پناہ گزین مرکز میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کے پاؤں عاجزی اور خدمت میں دھوئے تھے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر دولت کی عدم مساوات اور کیتھولک چرچ میں خواتین کے کردار،وسیع پیمانے کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیاتھا۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ” اگر کوئی شخص ہم جنس پرست ہے اور خدا کو تلاش کرتا ہے اور اس کی مرضی اچھی ہے تو میں ان کا فیصلہ کرنے والا کون ہوں “۔
پوپ فرانسس جنگ کے سخت ناقد تھے۔ انہوں نے یوکرین پر روس کے ناپسندیدہ حملے کی مذمت کی اور یوکرین سے مطالبہ کیا کہ وہ سفید پرچم بلند کرنے کی ہمت رکھے۔ اگرچہ اس مؤخر الذکر تبصرے کے ساتھ ساتھ، انہوں نے روسی نوجوانوں کو ایک عظیم روشن خیال روسی سلطنت کے وارث کے طور پر اپنی وراثت کو یاد رکھنے کی تاکید کے ساتھ، یوکرینیوں کا غصہ نکالا اور ویکٹیکن کو واپس چلنے پر مجبور کر دیا۔جیسا کہ حال ہی میں جنوری 2025میں، انہوں نے غزہ کی پٹی کی صورتحال کو انتہائی سنگین اور شرمناک قرار دیا۔ ایک معاون کی طرف سے دیے گئے ریمارکس میں کہا: ہم شہریوں پر بمباری کو کسی بھی طرح قبول نہیں کر سکتے۔ اس سے قبل ایک اسرائیلی وزیر کی طرف سے پوپ پر تنقید کی گئی تھی کہ غزہ میں فوجی مہم نسل کشی ہے یا نہیں اس پر وہ اپنی رائے دیں۔
میں پوپ فرانسس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہوں گا کہ پوپ فرانسس کی زندگی ایک بہت خاص اور متاثر کن سفر تھا۔پوپ بننے کے بعد انہوں نے عاجزی، سادگی اور انسان دوستی کو اپنی پہچان بنایاتھا۔ انہوں نے فقر و فاقہ، سماجی انصاف، ماحولیاتی تحفظ اور بین المذاہب مکالمے پر زور دیاتھا۔ وہ سیاست اور مذہب کے پیچیدہ تعلقات میں بھی اعتدال اور اصلاحات کے حامی رہے۔ دنیا بھر میں کیتھولک اور عیسائی مذہب کے لوگ اپنی بیماری، خوشی اور بچوں کی لمبی زندگی اور صحت کے لیے پوپ یا پادری سے دعا لینا اور ان کے ہاتھوں سے برکت لینا ایک معجزاتی کارنامہ سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پوپ خود اپنی موت کو کسی طرح نہ ٹال سکے کیونکہ کُلُّ نَفسِ ذَائقِتہُ الموتِ یعنی ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔