ایوارڈ ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر ہر کسی کودلی خوشی ہوتی ہے چاہے وہ ایوارڈ پانے والا ہو یا دینے والا ہو۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جب کوئی اپنے فن یا قابلیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے اس کی خاصیت اور قابلیت کے لئے ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔
بچپن میں ہم نے ایسی کئی کہانیاں پڑھی تھی کہ فلاں بادشاہ یا رانی نے کسی عام انسان کو اس کی بہادری کے لئے انعام سے نوازا۔ مختلف ممالک میں طرح طرح کے انعامات اور ایوارڈوں کو دئیے جانے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ یونان میں اولمپک جیتنے والوں کو پتّوں سے سجے ہوئے تاج کو سر پر پہنا نے کا رواج اب بھی قائم ہے۔ کچھ ملکوں میں پتھروں پر لکھی ہوئی تحریر کو ایوارڈ کے طور پر دیا جاتا ہے۔بیشتر ممالک میں جنگی سپاہیوں کو بہادری کے لئے ان کے کاندھے پر کانسے کے تمغے لگائے جاتے ہیں۔
اس طرح زمانہ قدیم سے ایوارڈوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب بھی دنیا بھر میں کافی مقبول اور عام ہے۔ اب توہندوستان میں ایوارڈ گلی اور محلّے کے لوگوں کو بھی دیا جانے لگا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ ایوارڈ کی مقبولیت ہے یا ایوارڈ کا گرتا ہوا معیار ہے۔پہلے سال بہ سال چند خاص ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا نام سنا جاتا تھا۔ لیکن اب تو ہر روز کسی نہ کسی کو ایوارڈ دینے کی خبر سنی جاتی ہے۔ ایک ایوارڈ چند سال قبل دلی میں ایک معروف اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر نے اپنی ذاتی دوستی کی بنا پر ایک غیر ملکی اردو بولنے والی خاتون کو دیا جو سوشل میڈیا پر زیرِ بحث رہا۔ایسا لگتا ہے کہ اس غیر ملکی خاتون کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کافی عجلت میں کیا گیا تھا۔سوشل میڈیا پر لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دلی کے ایک معروف اخبار سے تعلق رکھنے والے صاحب نے اپنی ذاتی تعلقات کے بنا پر انہیں ایوارڈ دلوایا ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم ہندوستان کی مثال لیں تو ہر روز کسی نہ کسی کو ایوارڈ دیئے جانے کی خبر ملتی رہتی ہے۔ مجھے اس سے حیرانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہندوستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس لحاظ سے ایوارڈ ہر روز بانٹنا ضروری ہو چکا ہے۔تاہم منتظمین کوشاید یہ آسانی ضرور ہوگئی ہے کہ انہیں ایوارڈ پانے والوں کی صلاحیت اور قابلیت کا جائزہ بڑے پیمانے پر نہیں لینا پڑ تا اور ایوارڈ آسانی سے بانٹ دیئے جا تے ہیں۔
ان تمام باتوں کے علاوہ اب بھی دنیا میں کچھ تنظیمیں ایوارڈ دینے کے کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں اور وہ ایوارڈکا معیار بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔تبھی اُن ایوارڈوں کو پانے والوں کے نام کو سن کر کوئی حیرانی نہیں ہوتی ہے اور دل خوش ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ایوارڈ دینے والے ادارے اس شخص کے کارنامے اور اس کی کامیابی کے بارے میں ایک جامع رپورٹ یا تفصیل شائع کرتے ہیں جس سے ایوارڈ پانے والوں کے تئیں خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی ایوارڈ کے متعلق ایک عمدہ اور اعلیٰ رپورٹ شائع کرتا ہے جس سے ایوارڈ اور اس کے پانے والوں کے بارے میں تشفی بخش اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔ایوارڈ پانے والے شخص کے ملک، خاندان، ادارہ اور سماج میں بھی خوب جشن منایا جاتا ہے۔
تاہم پچھلے کچھ دنوں سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے اس خبر کو پڑھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم بنجیمن نیتن یاہو(جس کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہوا ہے)نے ایک خط امریکی صدر کو دیا جس میں انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا۔ بات یہی نہیں ختم ہوتی ہے، اس سے قبل پاکستانی فیلڈ مارشل نے بھی اپنے امریکی دورے کے دوران وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کرکے انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔امریکی صدر ٹرمپ نے ماضی میں متعدد مرتبہ کہا کہ انہیں نوبل پرائز ملنا چاہیے۔جی یہ سن کر آپ کی طرح ہمارے بھی کان کھڑے ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عرب، اسرائیل میں ابراہم معاہدوں جیسے امن اقدامات کیے اور دیگر تنازعات کو کم کرنے میں مدد دی۔ ویسے ٹرمپ صاحب کو یاد دلایا جائے کہ غزہ میں ہزاروں بچوں اور عورتوں کو اسرائیلی فوجی کے ذریعے مارنے میں امریکی اسلحہ کا خوب استعمال کیا گیا۔سونے پر سہاگا یہ کہ ٹرمپ کے نامزد کرنے والوں میں ایک اہم نام، بنجیمن نیتن یاہو ہے جسے آئی سی سی کورٹ نے جنگی جرائم، بے گناہ شہریوں پر حملے، بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر وارنٹ جاری کیا ہے۔یعنی کہ ٹرمپ کو نوبل امن انعام پانے کے لیے کیسے کیسے لوگوں کے تلوے چاٹنے پڑ رہے ہیں۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ نوبل فاتح کون منتخب کرتا ہے۔ مختلف ادارے ہر سال ہر زمرے میں انعام دیتے ہیں۔ چھ میں سے پانچ کا انتخاب سوئیڈن میں ہوتا ہے۔ لیکن نوبل امن انعام کے فاتح کا انتخاب ناروے کی نوبل کمیٹی کرتی ہے۔یہ کمیٹی پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ جنہیں ناروے کی پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے۔ ماہرین، تعلیم، یونیورسٹی کے پروفیسرز، سائنس دان، سابقہ فاتحین اور قومی حکومتوں کے ارکان، یہ سبھی ان لوگوں کے نام جمع کرانے کے اہل ہیں جنہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ امن کا نوبل انعام جیتنے کا حق دار ہے۔اس سال 343امیدوار تھے۔ جن میں سے 251افراد اور 92تنظیمیں تھیں۔لیکن ہمیشہ کی طرح، ناموں کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ شارٹ لسٹ میں کون ہے۔نوبل ایوارڈ عالمی سطح پر اہم وقار کھتا ہے اور جیتنے والے کو 10ملین سویڈش کرونا یا(£803000) برٹش پونڈ انعامی رقم دی جاتی ہے۔
1895 میں نوبل پرائز کا آغاز معروف سوئیڈش سائنسداں (Alfred Nobel)الفریڈ نوبل نے کیا تھا۔نوبل پرائز کیمسٹری، ادب، امن، فزیکس اور فیجیولوجی(میڈیسن) کے ماہرین کو دیا جاتا ہے۔ تاہم 1968میں معاشیات کے لئے نوبل پرائز بھی شروع ہو گیا۔ایوارڈ کا فیصلہ سوئیڈش اکاڈمی کے ماہرین ممبران کرتے ہیں۔ ہر سال دس دسمبر کو سوئیڈن میں ایک خاص تقریب ہوتی ہے جس میں ایوارڈ یافتہ اپنا لکچر پڑھتے ہیں اور اپنا ایوارڈ وصول کرتے ہیں۔
تو یہاں سوال یہ ہے کہ کیا نوبل امن انعام پانے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کا دباؤ ہوگا؟ ممکن ہے، تاہم نوبل امن انعام جیسی معتبر عالمی شناخت کا اگر سیاسی، ذاتی یا متنازعہ مقاصد کے لیے استعمال ہو تو یہ نہ صرف اس انعام کی اہمیت کو پامال کرتا ہے بلکہ دنیا بھر میں امن، انصاف اور اخلاقی قیادت پر سے اعتماد بھی متزلزل ہوجاتا ہے۔ویسے نوبل پرائز کی بنیاد الفریڈ نوبل کی وصیت پر رکھی گئی، جنہوں نے واضح لکھا کہ” امن انعام اس شخص یا ادارے کو دیا جائے جو قوموں کے درمیان بھائی چارہ، مسلح افواج کی کمی یا امن کانفرنسوں کے فروغ کے لیے نمایاں کام کرے۔”خیر یہ تو وصیت ہے، تو نوبل انعام کی پامالی کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر انعام سیاسی اثر و رسوخ یا کسی خاص طاقت کے دباؤ پر دیا جائے۔یا کسی متنازعہ شخصیات، وہ شخصیات جن پر جنگی جرائم یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہوں، یا اخلاقی تضاد، امن انعام ایسے شخص کو دیا جائے جو بیک وقت کسی اور جگہ جبر یا تشدد میں ملوث ہو۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کو 1973میں ویتنام جنگ کے دوران امن انعام ملا حالانکہ ان پر لاکھوں ہلاکتوں میں کردار کا الزام تھا۔اس بات سے ناراض ہوکر خود نوبل کمیٹی کے کچھ ممبران نے استعفیٰ دے دیا تھا۔اب اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسی متنازعہ شخص کو یہ انعام دیا گیا تو یہ صرف ایک افسوس ناک بات نہیں ہوگی بلکہ اخلاقی معیار کے انحطاط کی نشانی بھی ہوگی۔ جب امن جیسے عظیم تصور کو خود امن کے محافظ اپنے مفاد کے لیے استعمال کریں تو دنیا میں انصاف کی امید کمزور ہوجاتی ہے۔ سچائی اور جھوٹ کا فرق دھندلا ہوجاتا ہے اور نوجوان نسل کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔
میں ایوراڈ حاصل کرنے والوں کی کافی قدر کرتا ہوں۔ کیونکہ اس سے اس شخص کو لیاقت اور قابلیت کا صلہ ملتا ہے اور اسے ایک اعزاز اور رتبہ بھی ملتا ہے۔ لیکن وہیں میں اس بات سے بھی فکر مند ہوں کہ چند مفاد پرست اور سرمایہ داروں نے ایوارڈ کا معیار گرانے میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔جس کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کے ذہن میں ایک سوال ابھر اہے کہ آخر صدیوں پرانی روایت کو کیوں نام نہاد مفاد پرست اور سرمایہ دار بدنام کر رہے ہیں۔لیکن مجھے امید ہے کہ ہر ذی شعور انسان ایسے نام نہاد اور مفاد پرستوں کو اپنی ایمانداری اور دیانتداری سے ایسا منہ توڑ جواب دیں گے تا کہ تعلیم یافتہ اور قابلِ قدر لوگوں جو ایوارڈ پانے کے مستحق ہیں ان کے وقار کو مزید دھچکا نہ پہنچے اور ایوارڈ کا باوقار سلسلہ جاری و ساری رہے۔