مئی 7 کی صبح جب ہماری آنکھ کھلی تو استنبول شہر جاگ چکا تھا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو صبح کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ کھڑکی سے جب پردے کو ہٹایا تو استنبول کی صبح محض ایک منظر نہیں بلکہ روح کے اندر اتر جانے والا ایک تجربہ تھا۔ اس شہر کی فضا میں تاریخ کی گونج، سمندر کی نمی اور میناروں سے بلند ہوتی اذان، سب کچھ مل کر ایسا اثر پیدا کرتے جو چند الفاظوں میں قید نہیں ہوسکتا۔
میں نے جو صبح کا منطر اپنی کھڑکی سے دیکھا تو آسمان نیلا مائل سرمئی نظر آیا۔ بوسفورس سمندرکے پانیوں پر ہلکی دھند تیر رہی تھی۔ پرندے خصوصاً سی گل کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں تیار ہو کر پروفیسر ڈاکٹر خاقان قیومجو اورپروفیسر ڈاکٹر رجب درگن کے ساتھ یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس کے ریسٹورنٹ میں نو بجے ناشتہ کرنا تھا۔اس کے بعد ہمیں قونیہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔دراصل قونیہ کے سفر کا پروگرام پروفیسر ڈاکٹر خاقان قیومجو کی دعوت پر ہوا تھا، جب انہوں نے ہمیں استنبول یونیورسٹی کانفرنس کے بعد قونیہ آنے کو کہا۔
گھڑی کی سوئی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور دیکھتے دیکھتے گھڑی نے ہم سب کو یاد دلایا کہ ہمیں استنبول سے قونیہ جانے کے لیے دوپہر ساڑھے بارہ بجے والی ہائی اسپیڈ ٹرین پر سوار ہونا ہے۔چھوٹاسا سامان اٹھایا اور انڈرگراؤنڈ ٹرین پر سوار ہوکر استنبول کے ینیکاپی اسٹیشن پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم تینوں اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ہائی اسپیڈ ٹرین شان سے استنبول چھوڑنے لگی اورساتھ ہی شہری منظر اور اونچی عمارتیں بھی پیچھے رہنے لگیں۔تیز رفتارہائی اسپیڈ ٹرین 250 کیلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔میں کھڑکی سے پہاڑیاں، ہرے بھرے پیڑ، کھلے میدان اور چھوٹے چھوٹے دیہات سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ہماری نظر کھڑکی سے باہر منا ظر پر مسلسل ٹکی ہوئی تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر خاقان کی آواز نے مجھے چونکادیا۔ انہوں نے ٹرین میں موجود ٹرین ہوسٹس سے ترکی چائے خریدی اور ہم ترکی چائے کا مزہ لینے لگیں۔
لگ بھگ پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ٹرین مولانا رومی کے شہر قونیہ کے سلچوقلو اسٹیشن پہنچی۔ ہم اپنا ہینڈ لگیج اٹھائے جب پلیٹ فارم پر اترے تو سلچوق یونیورسٹی کے اردو کے جوان استاد مہمت کمال نے ہمارا استقبال کیا اور ہم ان کے ہمراہ ان کی گاڑی پر سوار ہو کر رومی ہوٹل چل دئیے۔ اسٹیشن قونیہ کے شمالی حصے میں واقع ہے اور شہر کے مرکز سے تقریباً گیارہ کلو میٹر دور ہے۔ سلچوقلو اسٹیشن سے مولانا رومی کے مزار تک کا سفر نہ صرف جسمانی فاصلہ طے کرنے کا عمل تھابلکہ ایک روحانی تجربہ بھی تھا۔ اس سفر کے دوران مجھے تاریخ، تصوف اور سکون کا بھی احساس ہوا۔
ہوٹل پہنچ کر جوں ہی ہم بستر پر لیٹے،نہ جانے کب ہماری آنکھ لگ گئی۔تھوڑی دیر بعد جب آنکھ کھلی تو کمرہ اندھیرا تھا۔ گھڑی پر نظرپڑی تو معلوم ہوا کہ تھوڑی دیر میں مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔ ہم نے وضو کیا اور فوراًہوٹل سے نماز ادا کرنے کے لیے نکل پڑے۔ ہوٹل سے نکل کر فوٹ پاتھ پار کیا تو دس قدم کی دوری پر مولانا رومی کے مزار کے مینار کا دیدار ہوا۔ پاس ہی سلطان سلیم کی عالیشان مسجد پر بھی نظر پڑی۔ ابھی میرے قدم مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ مغرب کی اذان نے میرے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا کردی۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو اور دل براہ راست اللہ کی طرف متوجہ ہوگیا ہو۔ مسجد میں داخل ہوا اور دورانِ نماز امام کی تلاوت نے مجھ میں جو روحانی کیفیت پیدا کی، اس کا میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔نماز کے بعد مسجد میں بیٹھا مسجد کی خوبصورتی اور اونچی چھت کا بغور مطالعہ کرتا رہا اور سلطنتِ عثمانیہ کی شان اور فن تعمیر پر فخر کرنے لگا۔تبھی بچوں کے شور و غل اور بھاگ دوڑ نے مجھے چونکا دیا۔ لیکن کیا مجال کے کوئی ہنستے کھیلتے بچوں کو ڈانٹے۔ اس وقت مجھے ترکی کہاوت یاد آنے لگی،” اگر تمہاری مساجد میں جماعت کی پچھلی صفوں میں بچوں کا شور نہیں آرہا تو اپنے دین کے مستقبل کی فکر کرو”۔
قونیہ کے دو روز کے سفر کے دوران ہم نے مغرب اور عشا کی نماز سلطان سلیم مسجد میں پڑھی جس سے میری روح کو تازگی ملی۔سلطان سلیم مسجد ایک شاندار عثمانی دور کی مسجد ہے جو اپنی تاریخی اہمیت اور فن تعمیر کی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے۔یہ مسجد سلطان سلیم دوم نے 1558میں اُس وقت تعمیر کروانا شروع کی جب وہ شہزادہ تھااور قونیہ کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ مسجد کی تعمیر 1567میں مکمل ہوئی جب وہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان بن چکے تھے۔نماز کے ہال کو ایک بڑے مرکزی گنبد سے ڈھانپا گیا ہے جو عثمانی طرزِ تعمیر کی نمایاں خصوصیت ہے اور جس پر عربی آیات لکھے ہوئی ہیں۔مسجد کے دو بلند مینار ہیں جو اس کی عظمت اور خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ مسجد کے داخلی حصے میں سات چھوٹے گنبدوں والا ایک پیش صحن ہے جو نمازیوں کے لیے سایہ دار جگہ فراہم کرتا ہے۔مسجد کے محراب نیلے سنگ ِ مر مر سے اور منبر سفید سنگِ مرمر سے بنایا گیا ہے جو اندرونی حصے کو مزید دلکش بناتے ہیں۔مسجد کا قالین عثمانی طرز کے روایتی نقش و نگار، پھولوں، ہندسی اور عربی نمونہ سے بنے ہوئے ہیں جو صوفیانیہ روحانیت کی جھلک دیتے ہیں۔ سلطان سلیم مسجد قونیہ کے معروف مولانا میوزیم کے بالکل قریب واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مذہبی اہمیت کا حامل ہے بلکہ سیاحوں کے لیے بھی ایک پر کشش جگہ ہے جہاں وہ مولانا رومی کے مزار کی زیارت کے ساتھ ساتھ اس تاریخی مسجد کا بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی اور ترکی کا شہر قونیہ ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا رومی کی زندگی اور تعلیمات کا مرکز یہی شہر رہا اور آج بھی یہ جگہ ان کے چاہنے والوں کے لیے روحانی زیارت گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا جلاالدین محمدرومی (1207-1273)فارسی زبان کے عظیم صوفی شاعر، فلسفی اور روحانی پیشوا تھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ مثنوی معنوی صوفی ادب کا شہکار ہے۔ ان کی تعلیمات محبت، انسانیت، اُلُوہیت اور روحانی ارتقا کے گرد گھومتی ہیں۔ ہم نے مزار پر حاضری دی اور اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ جس طرح تونے مولانا رومی کو علم کی دولت سے مالا مل کیا ہے اسی طرح کچھ علم کی دولت تو ہمیں بھی عطا کر دے۔آمین۔
قونیہ میں قیام کے دوران میرے دوست اور رفیق پروفیسر داکٹر خاقان قیومجو اور پروفیسر ڈاکٹر رجب درگن نے ہمیں قونیہ کے کئی اہم مقامات کی بھی سیر کرائی۔ جس میں ایک دن ہمیں سلچوق یونیورسیٹی جانے کا بھی موقع ملا۔ سلچوق یونیور سٹی ترکی کے شہر قونیہ میں واقع ایک سرکاری یونیورسٹی ہے جو اپنی علمی، تحقیقی اور ثقافتی خدمات کے لیے ممتاز مقام رکھتی ہے۔سلچوق یونیورسٹی 11اپریل 1975کو ترکی قومی اسمبلی کے ایک قانون کے تحت قائم ہوئی۔ اس کا آغاز 1976-77کے تعلیمی سال میں دو فیکلٹیوں (سائنس اور ادب) اور 327طلبہ کے ساتھ ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ یونیورسٹی ترکی کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک بن گئی ہے۔مجھے فخر کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر خاقان قیومجو اور پروفیسر ڈاکٹر رجب درگن سلچوق یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ہیں اور بڑے ہی حسن و خوبی سے اپنی قابلیت اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر خاقان قیومجو اور پروفیسر ڈاکٹر رجب درگن کے لذیزترکی ظہرانے سے بھی ہم خوب لطف اندوز ہوئے جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ زندگی ایک سفر ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ میں نے سفر میں زندگی پائی ہے۔ ہم جسمانی سفر میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جاتے ہیں۔ ویسے ہی زندگی میں بھی ہم بچپن سے بڑھاپے، نا پختگی سے پختگی اور جہالت سے شعور کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ سفر ہمیں ہر پڑاؤ پر کچھ سکھاتا ہے، کچھ چھینتا ہے، اور کچھ نیا عطا کرتا ہے۔سفر ہمیں اجنبی جگہیں، اجنبی چہرے، ان کے درمیان جب انسان خود کو ڈھونڈتا ہے تو اصل میں وہ اپنی شخصیت کی ان پرتوں تک پہنچتا ہے جو روز مرہ زندگی میں چھپی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ سفر انسان کو خاکسار بناتا ہے۔ جب انسان پہاڑوں، سمندروں، صحراؤں یا رات کے آسمان کے نیچے کھڑا ہوتا ہے تو اسے اپنی اصل حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس وسیع کائنات میں کتنا چھوٹا ہے اور ہمارا رب کتنا عظیم ہے۔
سفر کے کافی فوائد ہیں۔ یہ علم میں اضافہ کرتا ہے۔ سفر انسان کو کتابوں سے زیادہ سبق دیتا ہے۔ مشاہدہ، تجربہ اور ملاقاتیں یہ سب علم کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ سفر کے دوران مختلف ثقافتوں، زبانوں اور نظریات سے مل کر انسان کے اندر وسعتِ قلب اور برداشت پیدا ہوتی ہے،جسے میں نے ہمیشہ اپنے سفر میں محسوس کیا ہے۔ ان شا اللہ زندگی رہی تو ہمارا سفر آئندہ بھی جاری و ساری رہے گا اور ہم آپ کو اسی طرح اپنے سفر کی روداد سناتے رہیں گے۔