عام طور پردنیا کے مقبول ترین شہر استنبول جانا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے تاہم میں بھی استنبول پہلے کئی دفعہ جا چکا ہوں۔ اس کا آغاز بھی 2015میں اس طرح ہوا جب استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے اپنا سو سالہ جشن منایا تھا۔
اس کے بعد مجھے استنبول شہر سے ایسا عشق ہوا کہ ہر چند سال بعدکسی نہ کسی بہانے میرا ا ستنبول کا دیدار ہو جا تاہے۔اس بار بھی میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے اس تقریب اور عالمی سمپوزیم میں برطانیہ سمیت ہندوستان اور اپنے محبوب شہر کلکتہ کی نمائندگی کرنے کا موقعہ ملا۔
چند مہینے قبل استنبول یونیورسٹی نے” انٹرنیشنل عبدالرحمن پشاوری سمپوزیم” کی دعوت دی اور مجھے ایک بار پھر استنبول کا دورہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ استنبول یونیورسٹی نے” عبدالرحمن پشاوری کی زندگی اور ان کی تحریک خلافت ” کے حوالے سے مجھے مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی۔پہلے تو میں ہاں اور نہ میں الجھا رہا لیکن پروفیسر ڈاکٹرمحمد راشد کے اصراراور محبت نے اس کانفرنس میں شرکت کے لئے مجھے مجبور کر دیا۔ پروفیسرڈاکٹر محمد راشد سے میری پہلی ملاقات 2015میں ہوئی تھی جب استنبول یونیورسٹی نے عالمی اردو کانفرنس منعقد کی تھی۔ پروفیسر راشد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ یوپی سے ہے۔ ان کے گھر والے اب بھی لکھنؤ میں آباد ہیں۔ پروفیسر راشد کی اعلیٰ تعلیم ہندوستان کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ہوئی ہے۔ انہیں اردو کے علاوہ فارسی، ترکی اور انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ محنتی تو ہیں ہی، لیاقت اور صلاحیت میں بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ میں نے راشد میاں کی مقبولیت ان کے ترکی طلبا کے درمیان دیکھی جو ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اکثر اردو کانفرنسوں میں جانے سے میں کتراتا ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جیسے کانفرنس کا بے معنی ہونا، ڈیلی گیٹ یا مندوبین کا غیر معیاری ہونا اور اثر ورسوخ یا خوشامدکا لازم ہونا۔لیکن اس سے زیادہ حیرت مجھے یہ ہوتی ہے کہ جب لوگوں کو میری کانفرنس میں شرکت کا علم ہوتا ہے تو وہ برجستہ پوچھتے ہیں کہ آپ کو کتنا ” پیسہ “مل رہا ہے۔میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دنیا بھر میں جتنی کانفرنس ہوتی ہیں چاہے، وہ کام و کاج کے سلسلے سے ہو،سیاسی یاسماجی یا تعلیمی کانفرنس ہوں، وہاں ڈیلیگیٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے خود فیس بھرتے ہیں۔جہاں انہیں دوسرے ڈیلیگیٹ کو سننے اور ملنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بھی اپنے پیپر کو پیش کرتے ہیں۔ پھر سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اردو کانفرنس میں ” پیسے” لینے کی چاہ اتنی کیوں بڑھ جاتی ہے۔
سنیچر3مئی کی رات دس بجے وِزائیر کی فلائٹ سے لندن سے استنبول کے لئے روانہ ہوا۔ شام چھ بجے بیگم ہما سید کی مہربانی سے قریب کے رینس پارک اسٹیشن بذریعہ گاڑی دس منٹ میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد اوور گراؤنڈ کی ٹرین پر سوار ہوکر پہلے برطانیہ کا مصروف ترین اسٹیشن کلافم جنکشن پہنچا۔ پھر کلافم جنکشن سے گیٹ وِک ائیر پورٹ جانے والی فاسٹ ٹرین پکڑ کر لگ بھگ چالیس منٹ میں ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ گیٹ وِک ائیر پورٹ برطانیہ کا مصروف ترین ائیر پورٹ ہے اور ا ئیر پورٹ ہمیشہ کی طرح مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔سیکورٹی وغیرہ کے چیک کے بعد کچھ وقت ڈیوٹی فری شاپس میں گزارا۔تھوڑی دیر میں ہماری جہاز وِز ائیراڑنے کے لئے تیار ہو گئی اور ہم اپنی سیٹ پر بیٹھ کر استنبول پہنچنے اور کانفرنس میں شرکت کرنے کے متعلق سوچنے لگے۔ نا جانے کب آنکھ لگ گئی تاہم تھکاوٹ اور رات کی فلائٹ کی وجہ سے نیند کا آنا لازمی تھا۔ لندن سے استنبول لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہے،جس کی وجہ سے اس میں نیند سونا، کھانا کھانا اور دیگر لوازمات کے لئے وقت کافی نہیں ہوتا۔
ترکی وقت کے مطابق صبح کے پونے چار بجے ہمارا جہاز استنبول کے نئے ائیر پورٹ پر وقت سے پندرہ منٹ قبل لینڈ کر گیا۔ استنبول کا نیا ائیر پورٹ واقع ایک بڑا ائیر پورٹ دِکھ رہا تھا جس کا شمار دنیا کے چند بڑے اور خوبصورت ائیر پورٹ میں ہوتا ہے۔ کافی دور چلنے کے بعد پاسپورٹ کنٹرول سے اپنے برٹش پاسپورٹ پر انٹری اسٹامپ لگوا کر باہر نکلا اور مشہور سِمیت سرائے چائے کی دکان پر کچھ دیر بیٹھ کر ترکی چائے کا مزہ لینے لگا۔ لگ بھگ دو گھنٹے بعد ایک بس پر سوار ہو کراکسرائے علاقے کی طرف روانہ ہوگیاجہاں انادولو یونیورسیٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ہمارے ٹھہرنے کا بندوبست تھا۔ بس سروس کافی آرام دہ اور آسان تھی جس کے ذریعہ ہم چالیس منٹ میں ائیر پورٹ سے اکسرائے پہنچ گئے۔بس سے جوں ہی باہر نکلا ایک ٹیکسی والے نے مجھے دیکھ کر میرے غیر ملکی ہونے کا اندازہ لگا لیا کہ یہ بندہ شاید لندن سے آیا ہے تو چلو اس سے کچھ مال بنایا جائے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے میرے گیسٹ ہاؤس کا پتہ جان کر دس ڈالر مانگے۔ تاہم مجھے علم تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور ہم سے جائز کرایہ نہیں مانگ رہا لیکن میں نے بھی اس کی خوشی کے لیے دس ڈالر دینے کی حامی بھر لی۔میں نے راستے میں ڈرائیور کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کیوں ایمانداری سے کرایہ نہیں وصول کرتے اور کیوں جائز کرایہ نہیں لیتے۔ ڈرائیور نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے دنیا بھر کے ڈرائیور کی طرح کرایہ زیادہ مانگنے کی وجوہات بیان کیں اور میں نے بھی اسے خوش رہنے کو کہا اور کہا کہ ٹھیک ہے دس ڈالر رکھ لو لیکن یاد رکھو پیسے کا آنا جانا ہے۔ٹیکسی والے نہ مجھے منزل سے تھوڑی دور اتارا اور تیزی سے اپنی ٹیکسی کو لے کر غائب ہوگیا۔
تھوڑی دیر آرام کر نے کے بعد ہماری ملاقات کونیا کے سیلچوق یونیورسیٹی سے تشریف لائے پروفیسر ڈاکٹر خاقان قیومجو اور پروفیسر ڈاکٹر رجب درگن سے ہوئی جن سے ہماری ملاقات پرانی ہے۔ تھوڑی دیر ہم نے گپ شپ کی اور اس کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے ہم سب اپنے اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے۔دوسرے روز ہم تینوں ٹیکسی پر سوار ہو کر استنبول یونیورسٹی پہنچے۔ کانفرنس کا اہتمام استنبول یونیورسٹی کے شاندار دکترا سالونو ہال میں کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے پہلے اور دوسرے دن اردو، ترکی اور انگریزی زبان میں مقالے پڑھے گئے۔ میں نے بھی بیک وقت ہندوستان اور یورپ کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے مقالے میں عبدالرحمان پشاوری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ خلافت کے حوالے سے اگر عبدالرحمن پشاوری کا ذکر نہ کیا جائے تو ایک متحرک، قابل رشک اور صاحب بصیر شخصیت کی حق تلفی ہوگی۔ عبدالرحمان پشاوری برصغیر پاک و ہند کی علمی، دینی اور سیاسی تاریخ میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق پشاور (پاکستان) سے تھا اور وہ اپنے زمانے کے ایک جید عالِم دین، مصلح اور صاحبِ قلم شخصیت تھے۔ ان کی تحریروں میں امت ِ مسلمہ کی وحدت، اسلامی روایات کی پاسداری، اور جدید دور میں اسلامی اقدار کو زندہ رکھنے کی فکر نمایاں ہے۔عبدالرحمان پشاوری کو خاص طور پر ترکی اور عرب دنیا میں بھی علمی پزیرائی حاصل ہوئی۔ وہ نہ صرف برصغیر بلکہ بین الاقوامی سطح پر اسلامی تحریکات سے جڑے ہوئے تھے۔ اسی وابستگی نے انہیں خلافت تحریک میں سر گرم کردار ادا کرنے کی طرف مائل کیا۔
عبدالرحمان پشاوری کے نزدیک خلافت صرف ایک سیاسی ادارہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے امتِ مسلمہ کی وحدت، دینی شناخت اور اسلامی تہذیب کا مرکزی ستون سمجھتے تھے۔ان کے خیالات میں درج ذیل نکات نمایاں ہیں۔ عبدالرحمان پشاوری نے ہمیشہ زور دیا کہ خلافت کا ادارہ مسلمانوں کی عالمی قحدت کی علامت ہے۔ان کے خیال میں اگر خلافت کا خاتمہ ہوا تو امت ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور استعمار کے لیے مسلمانوں کو غلام بنانا آسان ہوجائے گا۔ ان کی یہ پیش گوئی وقت کے ساتھ درست بھی ثابت ہوئی۔عبدرالرحمان پشاوری کی عملی جدوجہد اور فکری رہنمائی نے خلافت تحریک کے کارکنان میں حوصلہ اور استقامت پیدا کی۔ان کے افکار نے تحریک کو محض ایک وقتی احتجاج کے بجائے ایک نظر یاتی تحریک میں ڈھالنے میں مدد دی۔
کانفرنس کو کامیاب بنانے میں جن لوگوں نے اپنا قیمتی وقت صرف کیا ان میں شعبہ اردو کے معروف پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار، پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان، پروفیسر ڈاکٹرزکائی کارداس،پروفیسر ڈاکٹر آرزو اور پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد کا نام قابلِ ذکر ہے۔ڈاکٹر خلیل طوقار اپنی مصروفیت اور سفر کی تھکان کے باوجود اس کانفرنس کا کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی۔اس کے علاوہ شعبہ اردو کے ڈاکٹرمحسن رمضان اور ڈاکٹر خدیجہ گورگن نے بھی نمایاں رول نبھایا۔کانفرنس کے دوران شاندار ظہرانے کا انتظام استنبول یونیورسیٹی کے تاریخی ریسٹورینٹ “پروفیسر اے وی “میں کیا گیا تھا۔ جہاں لذیز ترکی کھانے پیش کئے گئے،جسے ہم سب نے مزے مزے سے کھایا۔
کانفرنس کے خاتمے کے بعد تمام مہمان اپنی اپنی منزل کو رخصت ہوگئے اور ہم پروفیسرڈاکٹر خاقان قیومجو کی نجی دعوت پر مولانا رومی کے شہر کونیا جانے کی تیاری کرنے لگے۔