You are currently viewing !شیشے کے گھر والے پتھر نہیں پھینکتے

!شیشے کے گھر والے پتھر نہیں پھینکتے

ایرا ن اور اسرائیل کے بیچ جو جنگی صورتِ حال ایک بار پھر پیدا ہوئی ہے،یقیناً یہ ایک گہری اور حساس سیاسی صورتِ حال ہے جسے اس مشہور کہاوت کے تناظر میں بڑی خوبی سے بیان کیا جاسکتا ہے۔” جو شیشے کے گھروں میں ہوتے ہیں، وہ پتھر نہیں پھینکتے”۔

 یہ صرف ایک کہاوت نہیں، بلکہ ایک گہری حکمت ہے۔ طاقت، اختیار اور جارجیت کے نشے میں اکثر قومیں یہ بھول جاتی ہیں کہ اُن کا اپنا وجود بھی نازک دھاگوں سے بندھا ہے،اُن کی دیواریں بھی شفاف ہیں اور اُن پر بھی وقت کی گرد جم سکتی ہے۔اسرائیل جو خود ایک نازک سیاسی، جغرافیائی اور اخلاقی توازن پر کھڑا ہے اگر ایران پر حملہ آور ہوکر اس کہاوت کو یکسر نظر انداز کررہا ہے۔ ایران، جسے مغربی دنیا میں اکثر خطرہ سمجھا جاتا ہے، دراصل ایک ایسا ملک ہے جو برسوں سے دباؤ، پابندیوں اور عالمی سازشوں کے درمیان زندہ ہے اور پھر بھی پلٹ کر جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے، چاہے وہ فوجی نوعیت کے ہوں یا خفیہ کارروائیاں، دراصل شیشے کے گھر سے پھینکے گئے وہ پتھر ہیں جو صرف دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ پلٹ کر خود مارنے والے کو بھی زخمی کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جو قومیں دوسروں کے گھروں کو جلانے نکلتی ہیں، وہ اکثر اپنے ہی وجود کی چمک کھو بیٹھتی ہیں۔ آج جب اسرائیل ایران کے خلاف قدم بڑھارہا ہے تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں، بلکہ اخلاقی جواز، عالمی رائے عامہ اور اندرونی استحکام سے بھی جیتی جاتی ہیں اور جب یہ سب کچھ شیشے کی دیواروں پر قائم ہو، تو پھر ایک ممکنہ تباہی  مقدر بن جاتی ہے۔

13 جون کی صبح سویرے ا سرائیل نے ایران کے متعدد مقامات پر وسیع پیمانے پر فضائی حملہ کیا، جس کا ہدف، ایٹمی تنصیبات کے علاوہ کئی فوجی مراکز اور اعلیٰ ایرانی کمانڈرز بھی تھے۔جس کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل میں کئی سو ڈرون اور بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا تو پوری دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی۔ کوئی اسے تیسری جنگِ عظیم کا آغاز بتا رہا  ہے تو کوئی اسرائیل کے خاتمے کی بات کر رہا۔ کوئی ایران کا مذاق اڑا رہا ہے تو کوئی اسے ایران کا ایک اہم قدم مان رہا،جس سے اسرائیل میں خوف پیدا ہوگیا ہے۔ویسے یہ سچ بھی ہے کہ ایران کے ڈرون اور بیلسٹک میزائل حملے سے اسرائیل سمیت ان کے حمایتیوں کی نیند حرام ہوگئی ہے کیونکہ میزائل اسرائیل کے تل ابیب میں گرا ہے جہاں کئی لوگوں کے مرنے کی بھی خبر ہے۔

ایران نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے ایرانی میزائل اور ڈرون کو اسرائیل کے حملے کے جواب میں روکنے میں مدد کی تو ان کے فوجی اڈوں اور بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ جس سے تہران کے جوہری پروگرام پر پہلے سے خونریز جنگ کو وسیع کرنے کا خطرہ ہے۔ وہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع میں مدد کرے گا اور امریکی حکام کے حوالے سے خبروں میں کہا گیا ہے کہ امریکی افواج نے پہلے ہی ایرانی ڈرون اور میزائلوں کو مارگرانے میں مدد کی ہے کیونکہ وہ اسرائیل کے قریب پہنچ چکے  تھے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی جمعے کو کہا کہ ان کا ملک ایرانی انتقامی کاروائیوں کے خلاف اسرائیل کے دفاع میں مدد کرے گا۔

یوں تو ایران نے اسرائیل کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے کی بات آیت اللہ خمینی کے ایران واپسی اور اعلان کے بعد سے اب تک قائم ہے۔وقت گزرتا گیا اور گاہے بگاہے اسرائیل اور ایران کسی نہ کسی بہانے آمنے سامنے بھی آجاتے ہیں۔ کبھی سفارتخانہ پر حملہ تو کبھی ایرانی کمانڈر کو مار دینا۔ تاہم پہلے ایران صرف اپنے غصے کا اظہار کرتا اور پھر بات  ختم ہوجاتی۔ لیکن ایران اور اسرائیل کے مابین تناؤ غزہ میں اسرائیلی حملے کے بعد مزید بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ جب اکتوبر2023 میں حماس نے 1100اسرائیلیوں کو مار ڈالا اور یرغمال بنا لیا تب سے اسرائیل  ساٹھ ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ اسی بیچ دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ ہوا اور ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو مار ڈالا گیا۔ جس کا شک سیدھے سیدھے اسرائیل پر ہے۔ تاہم اسرائیل پچھلے کئی برسوں سے ایران کے نیوکلیر سائنسدانوں کونشانہ بنا رہا ہے اور اس نے گاہے بگاہے کئی اہم افسران کو مارڈالا ہے۔لیکن ایران باوجود یہ جانتے ہوئے کہ اس کارستانی میں اسرائیل کا  ہاتھ ہے اور امریکہ کی پشت پناہی ہے، اس نے اسرائیل پر نہ حملہ کیا اور نہ بدلہ لینے کی دھمکی دی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جب کوئی آپ کے ملک میں گھس کر حملہ کرے تو آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اگر جوابی کارروائی نہ کی جائے تو بے عزتی اور ذلت ورسوائی، تو بہتر ہے جوابی کارروائی کی جائے تاکہ کم سے کم اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع تو مل جاتا ہے۔ویسے اس پورے گیم میں امریکہ اور برطانیہ سمیت فرانس اور دیگر مغربی ممالک  اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ امریکہ اور برطانیہ  تو بہت قبل سے ہی ایران پر معاشی پابندی لگا کر ایران کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ جس میں انہیں کتنی کامیابی مل رہی ہے اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے۔ یوں بھی اب امریکہ اور ایران کی معاشی پابندی کا اثر اتنا نہیں دیکھا جاتا جتنا کہ کچھ سال قبل دیکھا جاتا تھا۔ یعنی کہ معاشی پابندی لگا کر ملک کو کمزور کر دیا اور پھر وہاں کے لوگوں کو جمہوریت کا سبق پڑھا کر اس ملک کے حکمران کو مار دینا۔ آپ کو  عراق،لیبیا اور شام کا ڈرامہ یاد ہی ہوگا۔ وہاں بھی جمہوریت قائم ہوگئی ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ اور برطانیہ ان ممالک کے پارلیمنٹ پر قابض ہوگئے ہیں اور وہاں کے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو اپنے اشارے پر نچا رہے ہیں۔

ویسے امریکہ اور برطانیہ جو کہ جمہوریت کے محافظ کہلاتے ہیں، ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ ان کے اپنے ممالک میں جمہوریت سر اٹھا کر بولتی ہے۔ وہیں ان ممالک کے لوگوں کو نہ ان کے وزیراعظم اور صدر کا نام پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں حکومت کی کاکردگی سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ جس کی ایک وجہ ان ممالک میں زیادہ تر لوگ اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتے  اور کرتے ہیں تو ان کا انتخاب بھی دیکھ لیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ امریکہ اور برطانیہ کیوں دنیا کے ان ممالک میں ٹانگ اڑاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ٹانگ اڑانا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ بیشتر عرب ممالک میں جہاں جمہوریت کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جہاں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں،  وہاں امریکہ اور برطانیہ بجائے کچھ کہنے کہ ان کے ساتھ تلوار لے کر ناچتے ہیں یا لڑکیاں اپنی زلفوں کو کھول کر امریکی صدر کا استقبال کرتی ہیں۔ یعنی امریکہ اور برطانیہ کی دوغلی پالیسی کا بہترین نمونہ ان باتوں سے ہوتا ہے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ عرب ممالک ا مریکہ اور برطانیہ سے ہتھیار خریدنے والے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے فلسطین یا دیگر مسئلے پر عرب کیوں خاموش اپنی آرائش سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس کھل کر اسرائیل کی حمایت میں سامنے آ گئے ہیں۔ جو کہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ امریکہ اور برطانیہ جانتے ہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے انہیں ایران کو عراق، لیبیا اور شام کی طرح وہاں کی حکومت کو بدلنا ہوگا تاکہ اسرائیل کا پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ ہوجائے اور وہ عربوں کی آن و شان کو مٹا کر انہیں اپنا غلام بنا لے جس میں اسرائیل بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکا ہے۔وہیں امریکہ اور برطانیہ کھلے عام تمام فوجی امداد اسرائیل کو دئیے جا رہے ہیں جس سے اسرائیلی جارجیت تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔

یوں تو حالات دن بدن پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ اسرائیل  فلسطین میں امریکی اور مغربی ممالک کی مدد سے ہزاروں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ جو کوئی غزہ میں زندہ بچے ہیں وہ تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل نے ان کے کھانے اور پانی کی سپلائی کو بند کردیاہے۔ عرب ممالک اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ امریکہ کے اشارے پر وہ خاموش تماشائی بنے اپنی  عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور پوری دنیا بدحواس ہو کر اسرائیل کی جارحانہ غنڈہ گردی سے بے بس اور مایوس ہے۔

اسرائیل نے ایران کے نیوکلیر شہر اصفہان پر حملہ کر کے ایران کو جنگ میں کودنے پر مجبور کیاہے جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بات اب سدھرنے کے مزیدبگڑنے کی طرف رواں دواں ہے۔یعنی کہ آنے والے دنوں میں حالات بد سے بدترین ہوں گے اور تیسری جنگِ عظیم کا ٹلنا ناممکن لگ رہا ہے۔ ان تما م باتوں کے باوجود اس معاملے کا حل نکالا جاسکتا ہے لیکن جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ دھمکی آمیز بیان بازی کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اس سے تو حالات نہیں  سدھریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیاایران اور اسرائیل اس بات پر آمادہ ہوں گے کہ وہ پیچھے ہٹ کر جنگ سے گریز کریں۔ جو کہ مجھے ناممکن لگ رہا ہے کیونکہ اسرائیل،امریکہ کی پشت پناہی سے فلسطینیوں پر ظلم جاری رکھنا چاہتا ہے اورمشرق وسطیٰ میں غنڈہ بن کر جینا چاہتا ہے جو کہ  ایک ناممکن بات ہے اوراس سے صورتِ حال اور سنگین ہونے والی ہے۔شاید وقت آگیا ہے کہ قومیں طاقت کے مظاہرے سے پہلے آئینہ دیکھیں۔  بصورتِ دیگر، دنیا صرف ملبے، خاکستر اور ٹوٹے خوابوں کا منظر نامہ بن جائے گی جو کہ ایک افسوس ناک بات ہوگی۔

Leave a Reply