روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ، جو 2014میں کیمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرین میں شورش کے بعد شدت اختیار کر گیا ہے، جس نے 2022کے آغاز میں ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔ اس جنگ نے نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں سلامتی، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اس تنازعے کے تناظر میں تیسری جنگ عظیم کے امکانات پر غور کیا جائے تو کئی عوامل اور پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
روس اور یوکرین کے تعلقات میں تلخی کی بنیادی وجہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یوکرین کی خود مختاری اور مغرب کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ یوکرین کی مغربی ممالک، خاص طور پر نیٹو اور یوروپی یونین کے ساتھ قربت، روس کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہے۔روس نے ہمیشہ یوکرین کو اپنے اسٹریجک اثر و رسوخ کا حصہ سمجھا ہے اور اس کے نیٹو میں شمولیت کے امکانات نے روس کو سخت اقدامات پر مجبور کیا۔فروری 2022میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے نے دنیا کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا۔ مغربی ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں، یوکرین کو فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کی، اور روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی۔اس کے نتیجے میں توانائی کے بحران، غذائی قلت اور عالمی معیشت میں عدم استحکام جیسے مسائل پیدا ہوئے۔
روس اور نیٹو کے درمیان تنازعہ عالمی جنگ کی ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے۔ یوکرین کو نیٹو ممالک کی جانب سے فراہم کی جانے والی فوجی امداد اور جدید ہتھیاروں نے روس کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسے اپنے خلاف براہ راست دشمنی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اگر نیٹو کے رکن ممالک میں سے کسی پر روس حملہ کرتا ہے یا نیٹو کا کوئی قدم روس کو اشتعال دلاتا ہے تو یہ تصادم عالمی جنگ میں بدل سکتا ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بارہا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے، جس نے دنیا بھر میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اگر روس کسی بھی تنازعے میں جوہری ہتھیار استعمال کرتا ہے تو اس کے ردعمل می دیگر جوہری طاقتیں جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس بھی مداخلت کر سکتی ہیں۔ جس سے دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
یوکرین کے تنازعے میں چین نے ابھی تک براہ راست مداخلت سے گریز کیا ہے۔ لیکن مانا جاتا ہے کہ وہ روس کا ایک قریبی اتحادی ہے۔اگر مغربی ممالک روس کے خلاف مزید سخت اقدامات کرتے ہیں تو ممکن ہے چین اپنے اتحادی کی حمایت میں سامنے آسکتا ہے۔اس کے علاوہ ایران، شمالی کوریا، اور دیگر ممالک کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جو ایک بڑی عالمی جنگ کے لیے محرک بن سکتے ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کے امکانات کے باوجود، سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ، ترکی، اور چین جیسے ممالک نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کرانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم یہ کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ کیونکہ فریقین اپنے موقف پر قائم ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ امریکہ اور برطانیہ چاہتا ہی نہیں کہ روس اور یوکرین کا کوئی حل نکلے تبھی تو امریکہ اور برطانیہ نے کھلے عام یوکرین کو تمام جدید ہتھیاروں کی سپلائی شروع کر دی ہے۔ جس سے روس نے امریکہ اور برطانیہ کو نیوکلئیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔
برطانیہ اور امریکہ جمہوریت بچانے کی آڑ میں پوری دنیا کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔اور گاہے بگاہے روس کو دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ امن کی تجویز پیش کرنے کی بجائے امریکہ اور برطانیہ نے لگاتار روس کے صدر کو نشانہ بناتے ہوئے صورتِ حال کو مزید نازک بنا دیا ہے۔حملے کے آغاز کے چند ہی ہفتوں میں روسی فوجیں یوکرین کے بڑے علاقوں پر قابض ہوگئیں۔ روس نے کیف کے مضافاقی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی اور سومی کے ارد گرد ملک کے شمال مشرق کے زیادہ تر حصے کو کنٹرول کر لیا ہے۔روس مسلسل یوکرین پر بمباری کر رہا ہے اور یوکرین، امریکہ اور برطانیہ سے فوجی اور ہتھیار کی مدد کی بھیک مانگ کر حالات کو بد سے بد تر کرتا جارہا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین، روس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کی حکمت عملی روس کو مزید سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اگر مغربی ممالک اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کریں اور روس کو امن مذاکرات کے لیے قائل کریں تو تنازعہ کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا ناممکن لگ رہا ہے کیونکہ برطانیہ اور امریکہ کے جارحانہ انداز نے امن مذاکرات پر پانی پھر دیا ہے۔ وہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو روس اور یوکرین کی جنگ کو ایک دن میں بند کر دیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوری میں حلف لینے کے بعد اپنے وعدے کو پورا کریں گے یا ان کی بات محض ایک انتخابی مہم کا وعدہ بن کے رہ جائے گی۔
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد کس بھلے مانس کے دل و دماغ میں یہ بات آئے گی کہ چلو ایک بار پھر جنگ میں کود ا جائے۔تاہم برطانیہ اور امریکہ اور نیٹو جس طرح سے یوکرین سے روس پر حملہ کر رہے ہیں، اس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ ایک بار پھر جنگِ عظیم نہ ہوجائے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگِ عظیم، 1914 میں آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل کے بعد شرع ہوئی۔ اس کے قتل نے پورے یورپ میں ایک جنگ کی شکل اختیار کر لی جو 1918تک جاری رہی۔ اس تنازعہ کے دوران جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنتِ عثمانیہ (مرکزی طاقتیں) نے برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، جاپان متحد ہ کے خلاف جنگ کی۔نئی فوجی ٹیکنالوجی اور خندق جنگ کی ہولناکیوں کی بدولت، پہلی جنگ عظیم نے قتل و غارت اور تباہی دیکھی۔ جب جنگ ختم ہوئی اور اتحادی طاقتوں نے فتح کا دعویٰ کیاتب تک 16ملین سے زیادہ لوگ جن میں فوجی اور عام شہری شامل تھے ہلاک ہوچکے تھے۔
پہلی جنگِ عظیم (1914-18)کے ذریعہ یورپ میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے ایک اور بین الاقوامی تنازعہ کھڑا کر دیا اور دو دہائیوں بعد دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا جو پہلی جنگِ سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم جرمنی میں اقتدار میں آنے کے بعد نازی پارٹی کے رہنما ایڈولف ہٹلر نے قوم کو دوبارہ مسلح کیا اور عالمی تسلط کے اپنے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے اٹلی اور جاپان کے ساتھ حکمت عملی معاہدوں پر دستخط کیے۔ستمبر 1939میں پولینڈ پر ہٹلر کے حملے نے برطانیہ اور فرانس کو جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ جس سے دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔چھ سال چلنے والی اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 45سے
60ملین افراد ہلاک ہوئے جن میں 6ملین یہودیوں کو نازی حراستی کیمپوں میں ہٹلر کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جسے اب بھی ہر سال ہولوکوسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کو غیر عسکری اور نازی سے آزاد کرنا ہے۔ظاہر سی بات ہے پوتن نے یہ بات اس لیے کہی کیونکہ یوکرین کا صدر ایک یہودی ہے۔پوتن اکثر یوکرین پر انتہا پسندوں کے قبضے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جب سے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کو 2014میں ان کی حکمرانی کے خلاف مہینوں کے مظاہروں کے بعد معزول کیا گیا تھا۔کریملن نے کہا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے روس کی نیوکلیرقوت کو ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی،جو کہ ایک مزاحیہ اداکار ہیں اور جنہیں تین سال سے بھی کم عرصہ قبل منتخب ہونے پر سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا، روسی صدر پوتن اس بات سے برہم ہیں کہ یوکرین کے نئے یہودی صدر کا جھکاؤ یورپ اور امریکہ کی طرف دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔کیونکہ آئے دن یوکرین صدر زیلنسکی کبھی یوکرین کو نیٹو میں،تو کبھی یورپین یونین میں شامل کرنے کی مانگ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے پوتن کو یوکرین کے صدر پر شک گزرنے لگا کہ کہیں نہ کہیں یوکرینی صدر زیلنسکی امریکہ یا یورپ کا جوکر بن کر روس کی سلامتی کو خطرہ پہچانے کا کام کر رہا ہے۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، فلسطین، عراق، یمن، لبیا،افغانستان،شام اور نہ جانے کتنے ممالک میں امریکہ، برطانیہ،اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے بم گرا کر وہاں کی حکومت کو ذلیل اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا۔جس کی وجہ سے آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوا اور لوگ پناہ گزین بن کر امریکہ اور مغربی ممالک سے اپنی جان بچا رہے ہیں۔ جس پر نہ تو اقوام متحدہ نے کوئی سخت قدم اٹھایا اور نہ ہی کسی مغربی ممالک نے اس کی اتنی مذمت کی جتنی آج یوکرین کی حمایت میں کی جارہی ہے۔جبکہ آج اقوام متحدہ اور مغربی ممالک جنگ بندی کے لیے روس سے اپیل کر رہے ہیں۔اسے اگر ہم منافقت کہیں یا اسلام کے تئیں نفرت تو شاید آپ کو اس سے اختلاف نہیں ہو گا۔
جنگ بڑی ہو یا چھوٹی، میں ہر طرح کی جنگ کا مخالف ہوں۔ کیونکہ جنگ سے کسی مسئلہ کا حل نہیں نکلتا بلکہ حملہ کرنے والے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے کچھ پل کے لیے سر خرو ہوتے ہیں۔تاہم ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی جنگ کا ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب کوئی آپ پر خوامخواہ حملہ کرے اور اپنے دفاع کے لیے آپ کے پاس سوائے جنگ کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ہی حالت میں جنگ سے اب تک نقصان ہی اٹھانے پڑے ہیں۔ اگر ہم پچھلی د و عالمی جنگوں کا جائزہ لیں تو دونوں ہی جنگیں ایک ملک سے شروع ہوئیں اورایک خاص قوم سے منسلک تھیں۔ یعنی پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی پیش قدمی اور دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کا قتل و عام اہم وجہ تھیں۔اور اس بار بھی بات کہیں نہ کہیں یوکرین کے یہودی صدر زیلنکسی کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے۔جن کے رویے نے روسی صدر پوتن پر جنگ کا جنون سوار کر دیا ہے۔ تاہم اتنا تو طے ہے کہ جنگ سے اس مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں ہے اور روس کے جارحانہ انداز اور امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے اتحاد سے فی الحال جنگ ختم ہونا شاید ناممکن لگ رہا ہے۔
دنیا بھر میں عوامی رائے عامہ اس جنگ کے خاتمے کے حق میں ہے۔ امن کے حامی گروہ اور تحریکیں جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ان تحریکیوں کا مقصد تنازعے کے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ جو کہ فی الحال ناممکن لگتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں برطانیہ اور امریکہ کی یوکرین کو میزائل سپلائی سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں اور روس نے برطانیہ اور امریکہ کو وارننگ دی ہے کہ ان کے اس اقدام سے روس اپنے جدید ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دے گا جس میں نیوکلئیر ہتھیار بھی شامل ہیں۔روس اور یوکرین کے تنازعے میں تیسری جنگ عظیم کے امکانات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا
عالمی برادری کے پاس اس بحران کو سفارتی اور سیاسی ذرائع سے حل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ جنگ کا خاتمہ نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔ اگر دنیا بھر کے ممالک ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور تنازعے کے پُر امن حل کے لیے کوشش کریں تو ایک بڑی تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔