ماہرین کا ماننا ہے کہ انگلینڈ کے قبرستانوں میں جگہ کی کمی کے باعث مردوں کو یا تو کار پارک یا پھر قبرستانوں کے راستوں کے کنارے دفنایا جا رہا ہے۔ گرجا گھروں اور حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قبروں کا دوبارہ استعمال ہونا چاہئے کیونکہ کچھ قبرستانوں میں جگہ اب بالکل ہی نہیں بچی ہے۔
حال ہی میں لا کمیشن کی تجویز کے مطابق، انگلینڈ اور ویلز میں دفن کرنے کی جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے موجودہ قبروں کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے اورپرانی قبروں کو دوبارہ کھولا جاسکتا ہے۔ تاہم لندن سمیت کچھ علاقوں میں قبروں کے دوبارہ استعمال کی پہلے ہی اجازت ہے۔ لیکن لا کمیشن نے خبردار کیا کہ دیگر شہری علاقوں میں جگہ ختم ہونے کا خطرہ ہے۔لاکمیشن ایک آزاد ادارہ ہے جو انگلینڈ اور ویلز میں قانون سازی کا جائزہ لیتا ہے۔
اس وقت جن علاقوں میں قبروں کے دوبارہ استعمال کی اجازت ہے وہاں اصل تدفین کم از کم 75سال پہلے ہوئی ہے۔اگر کسی میت کے اہل خانہ قبر کو دوبارہ استعمال کرنے سے انکار کر دیں تو مزید 25سال تک کوئی تدفین کی کوشش نہیں ہوسکتی۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ وکٹوریہ دور میں بند کردیے گئے تدفین کے مقامات کو دوبارہ کھول دینا چاہیے۔ لوگوں کو گھر کے قریب یا کسی ایسے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے جو ان کے لیے خاص معنی رکھتا ہو۔
دس سال قبل بی بی سی لندن ریڈیو نے ایک سروے کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگلے دس برسوں میں ایک چوتھائی قبرستان میں مردوں کو دفنانے کے لئے جگہ نہیں ہوگی اور اگلے بیس برسوں میں آدھے سے زیادہ قبرستانوں میں لگ بھگ 44% جگہ نئے قبروں سے بھر جائے گی۔ زیادہ تر قبرستانوں میں نئی قبروں کے لئے میموریل بینچ کو ہٹا دیا گیا ہے اور کچھ قبرستانوں میں کار پارک یا راستے کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کونسل قبرستان کی جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اس کے قریب کی خالی زمینوں کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ بائیسٹر، آکسفرڈکے قبرستان کے منیجر نے قبرستان میں جگہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے راستے کے کناروں کی جگہ کا استعمال شروع کر دیا ہے اور اس کے علاوہ میموریل بنچ کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے تا کہ اس جگہ کو قبروں کے استعمال میں لایا جاسکے۔ اسی طرح اسپیل تھورن کونسل سرے نے بھی اسی طرح کے اقدام اٹھا تے ہوئے انہوں نے پاس ہی کے الاٹمنٹ (جہاں مقامی لوگ ساگ سبزیاں اگاتے ہیں)، کی زمین کا بھی استعمال کر رہی ہے کیونکہ اس علاقے میں چار میں سے تین قبرستانوں میں جگہ کی کمی ہو گئی ہے۔ اسپیل تھورن کونسل نے حال ہی میں اپنے قبرستانوں میں قبر کی قیمت کو بھی بڑھا دیا ہے۔
سنبری سیمیٹری کے منیجر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس نئی جگہ میں مردے دفنانے کے لئے اگلے آٹھ برسوں تک کے لئے جگہ ہے جب کہ اسٹینس جو کہ شورووڈ نورتھ الاٹمنٹ کے پاس ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کی جگہ اگلے دس برسوں میں بھر جائیگی۔ یوں بھی زیادہ تر قبرستا نوں کے پاس جو الاٹمنٹ موجود ہے، جس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ الاٹمنٹ اس لئے بنایا گیا تھا کہ مستقبل میں جب قبرستانوں میں جگہ کی کمی ہوگی تو الاٹمنٹ کا استعمال کیا جائے گا۔کونسل کی کیبینٹ نے کہا ہے کہ آخری حربے کے لئے حکومت کی اجازت لینا ضروری ہوگا۔ ایک قبرستان کے منیجر نے کہا ہے کہ حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ہمارے قبرستان میں صرف دو سال کے لئے ہی جگہ بچی ہے اور ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں جلد ہی پاس کوئی جگہ مل جائے تا کہ ہم آنے والے برسوں میں اس کمی کو پورا کر سکے۔
یونیورسٹی آف یورک سیمیٹری ریسرچ گروپ کی ڈاکٹر جولی رگ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ ہمیں قانون میں تبدیلی لا کر قبروں کا دوبارہ استعمال کرنا پڑے گا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے اپنا زیادہ تر وقت اس بات پر برباد کر دیا کہ اس کا حل کیا ہو لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی کہ ہمیں اب پیسہ قبر ستانوں میں نہیں لانا ہے بلکہ لوگوں کو قبرستانوں میں لانا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’قبرستانوں کو ایک متحرک جگہ بنانی پڑے گاجہاں آپ لوگوں سے ملیل ملاقات کریں، نہ کہ قبرستان ایسی جگہ ہو جو ترک کر دی گئی ہو یا پھر اداسی کی جگہ یا لاپرواہی کی جگہ بن گئی ہو‘۔
دی سٹی آف لندن سیمیٹری ہی انگلینڈ کا ایک واحد قبرستان ہے جہاں 2007 قانون کے تحت ایک قبر کا دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس قانون کے تحت کسی بھی قبر کو اوپر اٹھا کر یا اور گہرا کھود کر، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قبر پچھتر سال پرانی ہے ایسی قبر کی اور کھدائی کر کے نیچے کردینا تا کہ اس کے اوپر ایک اور قبر کی جگہ نکل آئے۔ حالانکہ یہ بات مانی جا رہی ہے کہ قبروں پر مردہ دوبارہ دفنانے کے اس عمل کو زیادہ تر لوگ پسند کریں گے اور یہ بھی مانا جا رہا ہے کہ یہ بات کچھ لوگوں کے لئے جذباتی ہوگی مگر لوگ اس مجبوری کو بھی سمجھیں گے۔ویسے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ایک ہی قبر کو دوبارہ استعمال کرنے کا کام آسان نہیں ہوگا کیونکہ زیادہ تر قبریں خرید ی جاتی ہیں اور صدیوں سے جو قبریں بکی ہوئی ہیں ان کے رشتہ داروں کو رجوع کرنا اور پھر ان سے اس بات کی اجازت لینا مشکل ہی نہیں ایک جذباتی کام ہوگا۔ منسٹری آف جسٹس جس کے ماتحت قبرستانوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کافی سنگین ہے اور اگر اس مسئلے کا حل ابھی نہیں نکالا گیا تو آنے والے برسوں میں حالات اور بھی سنگین ہوجائیں گے۔
آج کل عیسائی مذہب کے زیادہ تر لوگ دفنانے سے زیادہ مردے جلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ دفنانے میں خرچ زیادہ ہوتا ہے اور یہ رسم مہنگی بھی ہوتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ جلانے سے ماحول میں آلودگی نہیں ہو پاتی ہے اور خرچ بھی کم پڑتا ہے۔ سن لائف ڈائریکٹ انسورر کے مطابق مردے کے تدفین کا خرچ آج کل 7622 پونڈ سے لے کر 10000 ہوتا ہے جس میں قانونی دستاویز، سرہانے کی نام کڑھائی اور پھولوں کے علاوہ تدفین بھی شامل ہیں۔ یہ خرچ اس بات پر بھی منحصر کرتا ہے کہ آپ کس علاقے میں رہتے ہیں۔مثلاً اگر آپ لندن میں ہیں تو یہ خرچ لگ بھگ 9556 پونڈ اور اگر آپ ویلس میں ہیں تو یہ خرچ 6096 پونڈ پڑے گا۔
انگلینڈ میں مسلم کمیونیٹی کے زیادہ تر قبریں کونسل کے قبرستانوں میں ہوتی ہیں۔ یہاں ہر کونسل میں ایک عام قبرستان ہوتا ہے اور اسی قبرستان کا ایک حصہ مسلمانوں کے دفنانے کے لئے ہوتاہے۔ کچھ علاقوں میں مسلمانوں نے اپنی زمین خرید کر نجی قبرستان بنا رکھے ہیں۔ مسلمانوں کے تدفین کے لئے مقامی مساجد کے کچھ لوگ یہ کام کرتے ہیں۔ جس میں لگ بھگ 6000 پونڈ سے لے کر10000 پونڈ تک کا خرچ پڑتا ہے۔ اس میں مردے کو مسجد کی فریج میں رکھنے کا انتظام اور نہلانے کا بھی انتظام شامل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے جسدِخاکی کو تابوت میں رکھ کر دفنایا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ یہاں بنا تابوت کے بھی مردے کو دفناتے ہیں۔ مسلمانوں کی قبروں میں دوبارہ دفنانے کے سلسلے میں انگلینڈ کے مسلم علماٗ نے اب تک اپنا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔اس کے علاوہ لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں مسلمانوں نے زمین خرید کر اپنے قبرستان بھی بنانا شروع کر دیے ہیں لیکن وہ بھی بڑی تیزی سے بھرتے جارہے ہیں۔
برطانیہ میں قبرستان میں جگہ کی تنگی مجھے اس کیفیت سے دوچار کر رہی ہے، جہاں بہادر شاہ ظفر کا یہ مصرعہ میری جذبات کی ترجمانی کررہا ہے: دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔