بچپن ہندوستان کے معروف اور تاریخی شہر کلکتہ میں گزرا۔خوشی تو اس بات کی تھی کہ ہم ہندوستانی تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمیں اس بات سے بھی خوفزدہ کیا جانے لگا کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے’پاکستانی‘ہیں۔ اور یہ باتیں کبھی ہما رے منہ پر کہہ کر ڈرایایا جانے لگا تو کبھی ہماری طرف اشارہ کر کے دل میں خوف پیدا کیا جانے لگا۔اس کا احساس میرے ساتھ کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو بھی تھا۔
ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اپنا الّو سیدھا کرنے میں لگی ہوئی تھی۔جس میں انہیں نہ صرف کامیابی ملی بلکہ انہوں نے بابری مسجد کو شہید کر کے ہندوستان سمیت پوری دنیا کو سکتے میں ڈال دیا۔جس کا اثر دنیا کے دیگر کٹر مذہبی رہنماؤں پربھی ہوا اور انہوں نے بھی اپنے اپنے ممالک میں مذہب کی آڑ میں سیاسی اور ذاتی مفاد اٹھا ناشروع کردیا۔چاہے وہ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل و عام ہو یا برما کے روہنگیا مسلمانوں کا قتل و عام ہو یا چین کے اویغورمسلمانو ں پر ظلم ہو۔ اب تو دنیا میں مسلمان ہو نا جیسے جرم ہو گیا ہو۔ کبھی دہشتگرد تو کبھی پناہ گزین تو کبھی شہریت کا معاملہ، گویا آئے دن ایک نئی مصیبت سر پر آ جاتی ہے جو صرف مسلمانوں سے منسلک ہوتا ہے۔
برطانیہ میں رہتے ہوئے بتیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ان بتیس برسوں میں نہ جانے کتنے واقعات ایسے ہوئے ہیں جو زخم کواب بھی تازہ رکھے ہوئے ہے۔جن میں یورپ کے بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل و عام، امریکہ کا مسلم ممالک میں گرائے جانے والے بم، فلسطین پر اسرائیل کی بربریت، افغانستان، عراق،اور لبیا میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام، یمن میں جنگ سے فاقہ کشی،ہندوستان میں آئے دن مسلمانوں کو ہراساں کرنا وغیرہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر صرف آنسو بہانا ناکافی ہے۔اسی وجہ سے ان ممالک کے لوگ کبھی یورپ تو کبھی امریکہ میں پناہ گزیں بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔مغربی طاقتیں بھی انہیں اپنے اشارے پر نچاتے ہوئے دنیا کو یہ دکھا رہی ہے کہ ان ممالک کے حکمراں ظالم ہیں اور ان ممالک کے حکمراں کوہماری طرح ہونا چاہیے یعنی جوانسانی حقوق کے چوکیدار بن کر انسانیت کا خون کرتے رہتے ہیں۔۔ اسی طرح سعودی عرب اور خلیج کے عرب حکمراں جو اپنی بادشاہیت پر ناز کرتے ہیں، ہاتھوں میں تلوار لیے مغربی ممالک کے سربراہوں کے اشارے پر دن رات ناچتے رہتے ہیں۔
کچھ سال قبل ہندوستان میں بھی مودی حکومت نے شہریت کا متنازعہ قانون لاکر مسلمانوں کو سڑک پر آکر مظاہرہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس سے دلی کا شاہین باغ اور جامعہ ملیہ یونورسٹی کے طلبہ بھی نہ بچ سکے تھیں۔ جن پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ بڑا تھا اور پولیس سے لے کر انتہاپسند ہندوؤں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کتنے معصوموں کی آواز کو کچلنے کی کوشش کی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی معاملے کو ہندو مسلم رنگ دے کر بات کو اصل مدعے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے اور مسلمان ان باتوں سے غافل ہو کر کسی اور معاملے میں الجھ کر بے یارو مددگار اب بھی بھٹک رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ جب سے بی جے پی کی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی ہے تب سے وہ مسلمانوں کے معاملات میں مسلسل ٹانگ اڑا رہے ہیں۔تین طلاق، مسجد سے اذان، لو جہاد، گھر واپسی وغیرہ آئے دن کا ایجنڈا ہے۔اور اس سال جب سے ہندوستانی پارلیمنٹ نے وقف قانون میں ترمیم کی ہے تب سے ہندوستانی مسلمانوں میں کافی غم و غصہ دکھائی دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ وقف قانون کو مسترد کرنے کی اپیل کر رہے ہیں تو وہیں بل کے مخالف سیاستداں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر انصاف کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
ابھی ہندوستانی مسلمان اس معاملے میں الجھے ہوئے تھے کہ 22اپریل کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہمالیائی سیاحتی مقام پر مسلح افراد کے ہاتھوں 26افراد کی ہلاکت ہوگئی۔ابھی یہ خبر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیلی ہی تھی کہ ہندوستانی ٹیلی ویژن جسے عام طور پر لوگ”گودی میڈیا “کے نام سے بلاتے ہیں، انہوں نے اس پورے معاملے کو ہندو مسلم کا رنگ دے دیا۔پھر کیا تھا لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے کی اپیل کرنے لگے اور انتہا پسندوں کو کسی مذہب سے نہ جوڑنے کی تلقین بھی کرنے لگے۔لیکن صاحب لوگوں کی اپیل سے قبل ہی ایسا محسوس ہوا کہ اس معاملے کو گودی میڈیا کی فرقہ وارانہ ہوا دینے کے پیچھے کہیں یہ ایک پری پلان واقعہ تونہیں تھا؟ اگر دہشت گرد صرف ہندوؤں کو مارنے آئے تھے تو مرنے والوں میں مسلمان کیوں مارا گیا؟زیادہ تر سیاح جو کشمیر جارہے ہیں وہ ہندو ہیں اور کشمیر کے انتہا پسند گروپ کا تعلق مسلمانوں سے ہے تو اس بار اس معاملے کو ہندو مسلمان کرنے کے پیچھے راز کیا ہے؟کئی ایسے سوال ہیں جو کافی مشکوک ہیں۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہمیشہ انتہا پسند بنا ویزا کے سرحد پار کر کے اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ عام لوگوں کا ویزاہندوستان اور پاکستان ممالک جانے کے لیے یوں ہے جیسے لوہے کا چنا چبانا۔ اور وہی ہوا آناً فاناً ہندوستان نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان ہر دہشت گرد اور ان کے پشت پناہوں کو سزا دے گا۔ پاکستان کے ساتھ سرحدیں بند کر دی گئیں۔ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ سندھ پانی کی تقسیم کا ایک تاریخی معاہدہ معطل کر دیا گیا۔ اب پوارا معاملہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ ہونے تک پہنچ گیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کہا۔اللہ رحم کرے گنہگاروں کے ناپاک ارادوں سے۔
خوبصورت سیاحتی شہر پہلگام کے قریب سیاحوں پر حملہ کیا تھا۔ تاہم ابھی تک اس بات کی کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ یہ ظلم کس نے کیا لیکن کچھ میڈیا کا اشارہ پاکستان میں مقیم عسکریت پسند گروپ پر ہے۔ یوں بھی ہر بار کی طرح ممکن ہے کہ حکومت کچھ کشمیریوں کو جلد مار گرائے تاکہ لوگوں کو اس بات کا دلاسہ دیا جائے کہ حکومت نے دہشت گرد یا پاکستانی انتہا پسند وں کو مار گرایا تاکہ معاملہ ہر بار کی طرح ٹائے ٹائے فش ہوجائے۔اور آنے والے انتخابات میں بی جے پی ایک بار پھر کامیابی نصیب ہو۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک اہم سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسئلہ ہے جو مختلف حصوں میں مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔یہ مسئلہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہے بلکہ ایک پر امن، ہم آہنگ اور متنوع معاشرے کے قیام میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کو در پیش امتیازی سلوک کی کئی وجوہات ہیں۔ عبادت کی آزادی میں رکاوٹ، مثلاً حجاب یا اذان پر پابندی، مساجد پر حملے یا ان کی تعمیر میں رکاوٹ، تعلیمی و ملازمت کے مواقع میں امتیاز، میرٹ کے باوجود نوکریاں نہ ملنا، اسکولوں اور یونیورسیٹیوں میں مذہب کی بنیاد پر تعصب، ہوائی اڈوں پر مشکوک سمجھنا، پولیس یا خفیہ ایجنسیوں کا بلا جواز تفتیشی رویہ، میڈیا میں منفی تاثر، جیسے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا، مسلمانوں کے تئیں منفی خبریں پھیلانا۔ اس کی ایک مثال کشمیر دہشت گردی کی ہے جسے ہندوستانی میڈیا نے ہندو اور مسلمان سے جوڑ کر پورے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر دیا ہے۔جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔
دنیا میں امن و انصاف کا خواب اُس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک ہر مذہب، قوم اور نسل کو برابر کے حقوق نہ دیے جائیں۔بدقسمتی سے آج مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں امتیازی سلوک ایک بڑی حقیقت ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاشروں کی ہم آہنگی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن یہ ناقابلِ حل نہیں۔ تعلیم، شعور، قانون، اور مثبت کردار سے اس مسئلے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ہر انسان کو برابر کے حقوق دینا نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ یہ دنیا کو ایک بہتر پر امن اور خوشحال جگہ بنانے کی طرف قدم ہے۔
میں کشمیر میں مارے جانے والے بے گناہ انسانوں کے قتل پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں اور ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔ اسلام ایک پر امن مذہب ہے جو انسانیت، رواداری اور عدل کا درس دیتا ہے اور میں ہر اس عمل کے خلاف ہوں جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے۔میں لوگوں سے مذہبی نفرت بھلا کر انسانیت کی خاطر کام کرنے کی تلقین کروں گا۔تاہم جس طرح ہر مسئلے کو مسلمان اور اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے اس حوالے سے اقبال نے سچ کہا تھا ’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘۔