لندن سمیت پورے برطانیہ میں عید کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی، روحانی تجدید، اور سماجی میل جول کا ایک بڑا موقع ہوتا ہے۔یہاں مسلم کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد بستی ہے جو مختلف ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان، عرب ممالک ترکی اور صومالیہ سے تعلق رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں عید الفطر نہایت جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔اگر چہ یہ سرکاری تعطیل نہیں ہوتی، پھر بھی بہت سارے لوگ اس موقع پر اپنے کام و کاج سے چھٹی لے کر اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ عید کی صبح برطانیہ میں خاص طور پر بڑی مساجد اور کھلے میدان میں نماز عید کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ ان میں لندن کا ریجنٹ پارک مسجد، ایسٹ لندن کی مسجد ایسے ہیں جہاں چار سے چھ نمازیں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ برمنگھم کی گرین لین مسجد، مانچسٹر کی ڈوسبری مسجد اور وکٹوریہ پارک مسجد کے علاوہ لیسٹر کی میمن مسجد ایسے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔
جہاں بچوں میں عید کی تہوار کی آمد کا بے صبری سے انتظارہوتا ہے وہیں بڑے بوڑھے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کے تہوار منانے میں خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ عید کا تہوار پوری دنیا میں رمضان کے خاتمہ کے بعد منانے کا ایک بہترین یکجہتی کا نمونہ ہے۔تاہم مختلف ممالک کے لوگ اپنے اپنے طور پر عید مناتے ہیں اور ان کے پکوان سے لے کر لباس بھی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن سبھی میں ایک بات عام ہوتی ہے، وہ ہے عید کی خاص خوشی جس میں گلے ملنے کے ساتھ ساتھ اپنے اور غیروں میں تحفوں کا تبادلہ کرنا شامل ہے۔
عید کے موقع پر لندن کی ایک سہانی شام، ٹاور برج کے سامنے دریائے تھیمس کی لہروں پر شفق کے عکس نے ماضی کے دریچوں کو کرید دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کل کی ہی بات ہے جب تین دہائی قبل کلکتہ کے ہگلی ندی کی لہروں میں اسی طرح کا عکس دیکھنے کے لئے میں اکثر وہاں پر موجود رہتا تھا۔ آج تمام مناظر پھر سے تروتازہ ہوگئے اور کلکتہ کی یاد ستانے لگی۔ کلکتہ کو لندن کی طرح دیکھنے کے ارمان دریائے تھیمس کی لہروں کی طرح مچلنے لگے۔ فوراً یہ خیال آیا کہ شہر صرف کنکریٹ اور فلک بوس عمارتوں کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ ان عمارتوں کے مکینوں کی تہذیب و تمدن، روایت و ثقافت کے عنصر سے شہر معطر رہتا ہے۔
دنیا بھر میں ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں عید سعید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔برطانیہ کے بڑے شہر برمنگھم،لیورپول، مانچسٹر، لیسٹر، گلاسگو اور کارڈف سمیت لندن میں عید کلکتہ، ممبئی،لاہور، کراچی اور دیگر شہروں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہے۔ یہاں عید سے پہلے بچے اور عورتیں شاپنگ کرنے لگتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی زیادہ تر شاپنگ، ویمبلی، ساوتھ ہال، ٹوٹنگ اور گرین اسٹریٹ میں ہوتی ہے۔ یہ علاقے ایشیائی لوگوں کی آبادی والا علاقے ہیں۔ یہاں زیادہ تر دکانیں کھانے پینے اور کپڑوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ حلال گوشت کی دکانیں بھی کافی ہیں۔لندن کا معروف اور سب سے قدیم امبالہ سوئیٹ پچاس برسوں سے پورے برطانیہ میں اپنی مٹھائیوں کے لئے کافی مقبول ہے۔
لندن سمیت برطانیہ کے تمام بڑے شہروں میں اب چاند رات کی اہمیت بھی بڑھنے لگی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نوجوان شہر میں گھومتے رہتے ہیں اور لڑکیاں منہدی لگواتی ہیں یا بیوٹی پارلر جاتی ہیں۔ بہت سارے نوجوان ڈھول بجاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر پاکستانی باشندے ہوتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے لندن اور برطانیہ کا موسم خوشگوار اور گرم ہوتا ہے جس سے یہ نوجوان ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی دوسری نسل کے نوجوان جن کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ہے، وہ اس طرح سے اپنی خوشی کا اظہار اور جشن منانے کو اپنا حق مانتے ہیں۔ تاہم دیگر ممالک کے لوگوں میں اس طرح کی بات نہیں پائی جاتی۔ ممکن ہے وہ اپنی تقریبات کا اہتمام کسی ہال وغیرہ میں کرتے ہوں۔
ہندوستان اور پاکستان کی طرح عید کا چاند دیکھنے کا مسئلہ لندن میں کئی سالوں سے زیرِ بحث ہے۔ ایک طبقہ سعودی عرب کے اعلان پر عید کی نماز پڑھتا ہے تو دوسرا طبقہ رویتِ حلال کمیٹی کے اعلان پر نماز پڑھتا ہے۔ فی الحال اس مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر موڈرن کی مسجد سعودی عرب کے اعلان پر نماز کا اہتمام کرتی ہے تو دوسرے دن ٹوٹنگ کی مسجد میں نماز کا اہتمام ہو تا ہے کیونکہ ٹوٹنگ والے رویتِ حلال کمیٹی کی بات کو مانتے ہیں۔ ہر مسجد میں زیادہ تر جماعتیں دو یا تین ہوتی ہیں۔ کام پر جانے والے لوگ پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچے جنہیں اسکول جانا ہوتا ہے وہ بھی پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر اسکول چلے جاتے ہیں۔ اگر عید ہفتہ یا اتوار کو پڑتی ہے تو یوں احساس ہوتا ہے کہ عید کلکتہ، لاہور، کراچی شہر جیسا ہو رہا ہے۔کیونکہ یہ چھٹی کا د ن ہوتا ہے اور کافی چہل پہل بھی رہتی ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ سالوں سے عید کی نماز پارک میں بھی ہونے لگی ہے۔ چونکہ اپریل سے ستمبر تک لندن کا موسم خوشگوار ہوتا ہے۔
َؒدیگر ممالک کی طرح لندن میں بھی نماز کے بعد لوگ قبرستان جاتے ہیں جہاں وہ اپنے عزیزواقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ مسلمانوں کے قبرستان عیسائیوں کے قبرستان سے منسلک ہوتے ہیں اور ان قبرستانوں کی دیکھ بھال مقامی کو نسل کرتی ہے۔ اس کے بعد لوگ اپنے رشتہ دار اور دوستوں سے ملنے جلنے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے گھروں میں پارٹیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور ڈھیر ساری کھانے پینے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ کھانے میں سوئیاں، بریانی، تندور مرغ،پراٹھے، چانپ، مٹھائی اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔
عید کے دن زیادہ تر لوگ جو پاکستانی نژاد ہیں وہ شلوار قمیض پہنتے ہیں اور جن کا تعلق عرب سے ہے وہ عربی لباس پہنتے ہیں۔ لندن میں عید کے دن دنیا بھر کے مسلمانوں کا جم غفیر ہوتا ہے اور یہ نظارہ لندن سنٹرل مسجد یا اسلامک کلچرل سنٹر میں دیکھنے کو ملتاہے جسے ریجنٹس پارک مسجد بھی کہتے ہیں۔ یہاں کوئی پانچ سے چھ جماعتیں ہوتی ہیں۔ یہاں لندن کے ہر علاقے سے لوگ آتے ہیں۔ نماز پڑھنے کے بعد لوگ پاس کے ریجنٹس پارک میں پکنک کے لئے اکھٹے ہو تے ہیں۔ جہاں دنیا کے ہر ممالک کے لوگ اپنے قومی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہاں اس لئے نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی ملاقات پرانے دوستوں سے ہو جاتی ہے۔
ؑعید گزرنے کے کچھ ہفتے تک مختلف تنظیمیں اپنے اپنے علاقے میں سنگیت اور ڈنر کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیدرآباد، کیرالا، سری لنکا، پاکستان، ترکی،ماریشس وغیرہ کے باشندے اپنی اپنی کمیونیٹی کے لئے اسی طرح کی تقریبات کا انتظام کرتے ہیں۔ حکو مت برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم، لندن کے مئیر صادق خان اور دیگر سیاستداں مسلمانوں کو عید الفطر کی مبا رک باد پیش کرتے ہیں اوراس مبارک موقعہ پر برطانیہ کو دنیا کی یکجہتی، برداشت اور تمام مذاہب کا ملک ہونے کی مثال دیتے ہیں۔اس موقعہ پر مختلف سیاسی جماعتیں عید پارٹی کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔
برطانیہ میں عید مذہبی جوش، خاندانی روایات اور کمیونٹی کی سطح پر خوشیوں کا ایک حسین امتزاج بن چکی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے اپنے عقیدے کی تجدید، دوسروں کے ساتھ محبت بانٹنے اور مختلف کمیونٹیز کو قریب لانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔تاہم ہمیں عید کے موقعے پر فلسطین، یمن، اور دیگر ممالک کے لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنے ملک کے ابتر حالات سے دوچار ہیں۔ ہمیں اللہ سے دعا مانگنی چاہئے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اللہ ہمیں ظالموں سے محفوظ رکھے اور مظلوموں کی حفاظت ہو۔ ہمیں ان غریبوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو غربت کی وجہ سے عید کا تہوار ہماری اور آپ کی طرح نہیں منا پارہے ہیں۔آخر میں، میں اپنی جانب سے تمام لوگوں کو دل کی گہرائی سے عید کی ڈھیر ساری مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ جہاں بھی ہوں خوش رہے اورہمارے بیچ اتحاد قائم ہو۔میں اپنے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
آیا نہیں ہے صبر یہ دل بیقرار ہے
اس عید پر بھی تیرا فقط انتظار ہے