تین مہینے قبل ایمسٹرڈیم میں مقیم معروف شاعر و ادیب محمد حسن سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ فہیم بھائی ہم بارسولیناجانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ میں نے بھی فوراً حامی بھر لی اور دفتر میں چھٹی کے لیے درخواست ڈال دی۔
تاہم بھائی محمد حسن کبھی ہاں اور کبھی نہ میں اٹکے ہوئے تھے۔ دراصل انہیں ہوٹل کی بُکنگ میں دشواری ہورہی تھی اور میں بھی محمد حسن کی وجہ سے اپنی بُکنگ نہیں کر پارہا تھا۔خیر جون کی شروع میں ہم نے کسی طرح بُکنگ کی اور اس بار ہوٹل کی بجائے ہم نے ائیر بی این بی میں بُکنگ کی۔ ائیر بی این بی دراصل میرا پہلاتجربہ تھا کیونکہ اس سے قبل میں نے ہمیشہ ہوٹل میں ہی قیام کیا تھا۔ ائیر بی این بی ایک یا دو کمرے یا پورا مکان ہوتا ہے جس میں یا تو مالک مکان ساتھ رہتا ہے۔ یا وہ اپنے اس مکان کو کم مدت کے لیے کرایے پر دے دیتا ہے۔ جس میں آپ ان کے باورچی خانے میں من پسند کھانا بھی پکا سکتے ہیں۔
بھائی محمد حسن نے بارسولینا کا انتخاب اس لئے بھی کیا تھا کہ ان کا بیٹا ارباب بارسولینافٹ بال کلب کا بہت بڑا حامی ہے اور پاپا حسن نے ارباب کی خواہش پورا کرنے کے لیے بارسولینا کا انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ اسپین کی چھٹیوں کے لیے زیادہ تر لوگ بارسولینا ہی جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسپین میں بارسولینا سے ہی سب سے زیادہ کمائی سیاحوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔جمعرات 15اگست کو جب ہندوستانی آزادی کا جشن منا رہے تھے اور پاکستانی 14 اگست کو آزادی کا جشن منا کر آرام کررہے تھے تو ہم بھی اسی دن صبح چھ بجے گھر سے نکل کر پاس ہی بس پر سوار ہو کر رینس پارک اسٹیشن پہنچ گئے۔رینس پارک سے ہم نے اوور گراؤنڈ ٹرین پر سوار ہو کر برطانیہ کا مصروف ترن اسٹیشن کلافم جنکشن پہنچ گئے جہاں سے ہم ایک اور ٹرین پر سوار ہو کر لندن کا پانچواں ائیر پورٹ گیٹ وِک صبح کے ساڑھے سات بجے پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ پر ہم نے ناشتہ کیا اور اسپین کی ویوولِنگ جہاز پر سوار ہو کر اسپین کے معروف شہر بارسولینا روانہ ہوگئے۔لگ بھگ دو گھنٹے دس منٹ کے سفر کے بعد بخیریت ہمارا جہاز بارسولینا اتر گیا۔
جہاز سے باہر نکلتے ہی تیز قدمی سے ہم پاسپورٹ کنٹرول کی طرف بڑھنے لگے۔ لیکن لمبی قطار دیکھ کر ہمارے ہوش اڑ گئے۔ دراصل اس کی ایک وجہ برطانیہ کا بریکزٹ سے باہر ہونا ہے جس کاایک خمیازہ یہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ اب ہمیں یورپ کے کسی ملک جانے کے بعد پاسپورٹ کنٹرول پر لمبی قطار میں گھنتوں کھڑے ہوکر باہر نکلنا پڑتا ہے۔ خیر پاسپورٹ کنٹرول پر کسٹم پولیس نے اسٹامپ لگایا اور ہم تیز قدمی سے باہر نکل گئے۔ باہر نکل کر جیسے ہی بھائی محمد حسن کو فون لگایا، وہ ہمارے پیچھے ہی تھے۔ وہ اور ان کی بیگم اور بیٹے کے ہمراہ ہم ائیر بی این بی کی جانب چل دئیے۔اس سے قبل ہم نے 120گھنٹے کا ٹرین پاس بھی خریدا جس کے لیے ہمیں 40یورو ادا کرنے پڑے۔
بارسولینا اسپین کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور کاتالونیا کا دارلحکومت ہے۔یہ شہر تاریخی، ثقافتی اور فنون لطیفہ کے حوالے سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ بارسولینا کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ شہر قدیم زمانے میں رومیوں کے زیرِ اثر رہا اور ان کی طرف سے ایک قلعہ بند شہر کے طور پر قائم کیا گیا۔ رومی دور کے آثار آج بھی بارسولینا میں موجود ہیں، جیسے کہ قدیم رومی دیواریں وغیرہ۔ بارسولینا فنون لطیفہ اور فن تعمیر کا مرکز ہے۔ یہاں کے معمار انٹونی گاؤدی کے کام نے شہر کو عالمی سطح پر منفرد شناخت بخشیہے۔ گاؤدی کی مشہور عمارتیں جیسے کہ ساغرادا فامیلیا اور پارک گوئل کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ ساغرادا بارسولینا کے ایکسیمپل ضلع میں زیرِ تعمیر چرچ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نامکمل کیتھولک چرچ ہے۔جسے کاتلان معمار انتونی گاؤدی نے (1852-1926)کے دوران ڈیزائن کیا تھا۔ 1984میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا۔ میں نے چرچ کے چاروں طرف گھوم کر اس کا مطالعہ کیا جس میں اب بھی بڑے بڑے کرین لگے ہوئے ہیں اور چرچ واقع دنیا کا آٹھواں عجوبہ لگ رہا ہے۔
بارسولینا کاتالونیا کا ثقافتی مرکز بھی ہے۔ جہاں کاتالان زبان اور ثقافت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شہر کے باشندے کاتالان ثقافت، زبان اور خود مختاری پر فخر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کا معروف بارسولینا فٹبال کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ جہاں کا فٹبال کلب ایف سی بارسولینا دنیا کے مشہور ترین اور کامیاب ترین کلبوں میں شمار ہوتا ہے۔ بارسولینا کی تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی اہمیت نے اسے ایک عالمی شہر کے طور پرمتعارف کروایا ہے جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
اسی دوران ہماری ملاقات معروف ادیب اور شاعر ارشد نظیر ساحل سے بھی ہوئی۔ جو پچھلے کئی برس سے بارسولینا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے فیس بُک لائیو لگا کر ہماری مختصر گفتگو اور شاعری کو دنیا بھر کے سامعین کے سامنے پیش کیا جس کے لیے ہم جناب ارشد نظیر ساحل کے شکر گزار ہیں۔ ارشد نظیر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ پچھلے چند برسوں میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی اسپین آچکے ہیں جو کہ ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔میں نے بھی فوٹ پاتھ پر مختلف سامان بیچتے ہوئے زیادہ تر پاکستانی دکھائی دئیے۔ جب ہم سمندر کی ساحل پلازا پر گئے تو وہاں ہم نے سامان فروخت کرتے ہوئے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں سے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سارے پاکستان سے افغانستان، ایران، ترکی پھر یونان، اٹلی وغیرہ پیدل چل کر غیر قانونی طور پر اسپین پہنچے ہیں۔اسی طرح افریقی بھی مراکش سے غیر قانونی طور پر اسپین آتے ہیں۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یورپ آنے کے لیے دنیا کے تیسرے ممالک کے لوگ کیا کیا اذیتیں سہتے ہیں۔
سیاحت ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگ اپنی روز مرہ زندگی سے نکل کر دوسرے مقامات کی سیر و سیاحت کرتے ہیں، چاہے وہ تاریخی مقامات ہوں، قدرتی مناظر ہوں یا ثقافتی تجربات ہوں۔ سیاحت دنیا بھر میں اہمیت رکھتی ہے اور معاشروں پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ جس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے اور میں مانتا ہوں کہ زندگی صرف ایک سفر نہیں ہے بلکہ میں نے سفر میں زندگی پایا ہے۔