!اے زندگی تو ہی بتا، تجھ سے سوال ہے

زندگی، بیماری اور غم ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں انسانی تجربے کے ایسے پہلو ہیں جو ہمیں زندگی کی حقیقت، اس کی نزاکت اور اس کی گہرائی کا احساس دلاتے ہیں۔

زندگی اپنی خوبصورتی، پیچیدگی اور لمحاتی کیفیت میں حیرت انگیز ہے۔ یہ ہمیں مواقع، محبت، خوشی، اور ترقی کے مواقع دیتی ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ہموار نہیں ہوتی، اس میں مشکلات، آزمائش اور چیلنجز بھی شامل ہوتے ہیں جو ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔وہیں بیماری، زندگی کے اُس حصے کی یاد دہانی ہے جہاں انسان اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہ جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جذباتی چیلنجز بھی لاتی ہے۔ بیماری انسان کو زندگی کی عارضی فطرت کا احساس دلاتی ہے اور اکثر ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خود پر اور دوسروں پر رحم کرنا کتنا ضروری ہے۔تاہم غم، چاہے کسی اپنے کی موت کا ہو، یا زندگی میں کسی اور نقصان کا، ایک گہرا جذباتی، تجربہ ہے۔ یہ انسان کو اندر سے جھنجھوڑدیتا ہے۔ لیکن یہ انسان کی حساسیت اور محبت کی گہرائی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ غم وہ قیمت ہے جو ہم محبت کے لیے ادا کرتے ہیں اور یہ ہمارے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

ہمارے درمیان بیماری اور غم اکثر زندگی کی معنویت پر سوال اٹھاتے ہیں لیکن یہی سوال ہمیں زندگی کے قیمتی لمحات کی اہمیت سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ غم کے لمحے انسان کو اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا موقع دیتے ہیں اور بیماری اکثر خود آگاہی کا سبب بنتی ہے۔یہ تینوں مل کر ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ خوشی، سکون اور صحت کے لمحات کو کتناسراہنا چاہیے۔

 برطانیہ میں “شدیدبیماروں کو مارنے” یا “ایسسٹڈ سوسائیڈ “کے حوالے سے کئی دہائیوں سے بحث جاری ہے۔یہ موضوع اخلاقیات، مذہب، قانون اور طب کے درمیان پیچیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس حوالے سے کئی بلز پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے ہیں، لیکن اب تک کوئی بھی قانون منظور نہیں ہوا۔حال ہی میں ایک بار پھر برطانیہ میں ” شدیدبیماروں کو مارنے” کے بل ایک بار پھر سرخیوں میں رہی۔ انگلینڈ اور ویلز میں شدید بیمار افراد کو اپنی زندگی ختم کرنے کا انتخاب کرنے کا حق دینے کے لیے ایک مجوزہ قانون شائع کیا گیا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ 29نومبر کو پہلی بار بل پر ووٹ دیں گے۔جبکہ اسکاٹ لینڈ میں ایک علیحدہ بل زیر بحث ہے۔تاہم انگلینڈ اور ویلز میں معاون مرنے سے متعلق قانون کیسے بدل سکتا ہے یہ ابھی زیرِ بحث ہے۔

 اس وقت پورے برطانیہ میں قوانین لوگوں کو مرنے کے لیے طبی مدد طلب کرنے سے روکتے ہیں۔ لیبر پارٹی کی ایم پی کم لیڈبیٹر نے ٹرمیلی اِل ایڈس (زندگی کا خاتمہ) بل متعارف کرایا ہے۔ جو انگلینڈ اور ویلز میں قانونی پوزیشن کو تبدیل کرسکتا ہے۔2015میں یوتھنیشیا کا بل برطانیہ میں پیش کیا گیا تھاجسے مسترد کر دیا گیا۔ تاہم دس سال بعد ایک اور بل” اسسٹیڈ ڈائنگ بل” لیبر پارٹی ایم پی کِم لیڈبیٹر 29نومبر2024کو پیش کریں گی۔ یہ بل اس بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے کہ ہم اپنے بوڑھوں، کمزوروں، اور خاص طور پر ان لوگوں کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں جن کو شدیدبیماریاں ہیں۔اگر چہ میں اس بل کے پیچھے ہمدردانہ دلائل اور احتیاطی خدشات کو تسلیم کرتا ہوں۔تاہم میں احترام کے ساتھ اس کی بنیاد سے متفق نہیں ہوں۔

ایم پی لیڈبیٹر کی تجویز  میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ بل عارضی طور پر بیمار مریضوں کے لیے مصائب سے بچاؤ کرے گا۔بل تجویز کرتا ہے کہ معاون مرنے کو فعال کرنے سے عارضی طور پر بیمار افراد کی خوفناک اموات کو روکا جائے گا۔ اس طرح ان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے گا۔ پھر بھی عملی طور پر یہ نقطہ نظر نادانستہ طور پر لوگوں پر موت کا انتخاب کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر وہ متضاد محسوس کریں۔ ان افراد کو آزاد کرنے کے بجائے اس سے انہیں کم آزاد بنانے کا خطرہ ہے۔اس کے علاوہ اس بل میں مضبوط جانچ کی تجویز دی گئی ہے۔جس کے لیے دو ڈاکٹروں اور ہائی کورٹ کے جج سے منظوری درکار ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مریض ذہنی طور پر قابل، جبر سے آزاداور حقیقی طور پر اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔تاہم کنزرویٹیو ایم پی ڈینی کروگر اورناقدین کا کہنا ہے کہ یہ چیک وقت کے ساتھ معمول بن سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کیسز کو ناکافی جانچ پڑتال کے ساتھ منظور کیا جاسکتا ہے۔وہیں اس بل کے حامیوں کا استدلال ہے کہ مرنے کی مدد سے بیمار افراکو آسانی ہوگی جس سے وہ طویل تکلیف سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ یہ واقعی زندگی کو کیسے باوقار بناتا ہے؟ ایک باوقار انتخاب زندگی کے خاتمے کے بجائے ہمدردی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے زندگی کے اختتام کی بہتر دیکھ بھال اور درد کے انتقام میں سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔

اس بل میں کئی اہم باتیں شامل ہیں جیسے کہ جو بھی اپنی زندگی ختم کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ: 18سال سے زیادہ عمراور انگلینڈ اور ویلز میں رہتے ہوں اور کم از کم بارہ ماہ کے لیے جنرل پریکٹس مقامی ڈاکٹر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ انتخاب کرنے کی ذہنی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے جبریا دباؤ سے آزاد، واضح، طے شدہ اور باخبر خواہش کا اظہار کیا ہے۔چھ ماہ کے اندر مرنے کی امید ہے، اپنی موت کی خواہش کے بارے میں گواہ اور دستخط شدہ دو الگ الگ اعلانات کریں۔ دو آزاڈاکٹروں کو مطمئن کریں کہ وہ اہل ہیں۔ہر ڈاکٹر کی تشخیص کے درمیان کم از کم سات دن کے ساتھ ہائی کورٹ کے جج کو  کم از کم ڈاکٹروں میں سے کسی ایک سے ضرور سننا چاہیے اور وہ مرنے والے یا متعلقہ سمجھے جانے والے کسی اور سے پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔جج کی جانب سے اپنا فیصلہ سنانے کے بعد ایک مریض کو کارروائی کرنے سے پہلے مزید 14دن انتظار کرنا پڑے گا۔ ایک ڈاکٹر مریض کی زندگی کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہونے والا مادہ تیار کرے گا، لیکن وہ شخص خود اسے لے گا۔ کسی کو یہ اعلان کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا یا مجبور کرنا غیر قانونی ہوگا کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جس کی ممکنہ 14سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اسسٹڈ سوسائیڈ کیا ہے۔ اسسٹڈ سوسائیڈ اس عمل کو کہتے ہیں جس میں کسی لا علاج بیماری کے شکار مریض کی خواہش پر انہیں مرنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے جو کہ عام طور پر ایک معالج کی نگرانی میں ہو۔برطانیہ میں فی الحال یہ عمل غیر قانونی ہے۔ اس کے تحت کسی کو اپنی موت میں مدد دینا ایک مجرمانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور اس کی سزا 14سال تک قید ہوسکتی ہے۔ حالیہ پیش رفت یہ ہے کہ 2021اور 2023 کے درمیان،  چند بلز ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامنز میں پیش کیے گئے، جن میں لا علاج بیماریوں کے شکار مریضوں کو قانونی طور پر اپنی موت کا انتخاب کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی۔ لیکن یہ بلز شدید تنقید اور اخلاقی اعتراضات کی وجہ سے منظور نہ ہوسکے۔اسسٹڈ سوسائیڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور لاعلاج مریضوں کو اذیت سے بچانے کے لیے انہیں اپنی موت کا اختیار ہونا چاہیے۔جبکہ اس بلز کی مخالفت میں مخالفین کا موقف ہے کہ یہ انسانی جان کی قدر کم کرنے اور کمزور افراد کے استحصال کا باعث بن سکتا ہے۔

شدید بیماریوں کے ساتھ رہنے والے بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بل انہیں امید فراہم کرتا ہے کہ شاید انہیں تکلیف دہ یا طویل موت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس سلسلے سے ایک خاتون نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بریسٹ کینسر کی وجہ سے مسلسل درد میں رہتی ہے جو اس کی ہڈیوں، پھیپھڑوں اور جگر میں پھیل چکا ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف دو سال ہیں۔ اس خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ درد صرف اور زیادہ بڑھے گا کیونکہ اس کا جسم درد کم کرنے والی دوائیوں کو زیادہ برداشت کرتا ہے۔جس سے وہ کم موثر ہوجاتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ” میں مرنے سے نہیں ڈرتی لیکن میں ایک بری موت سے ڈرتی ہوں۔ ایک لمبی، کھینچی گئی، سفاکانہ، خوفناک موت، جو مجھے خوفزدہ کرتی ہے۔

زندگی، شدید بیماریاں، غم اور درد کے ساتھ میں اس بات سے اتفاق اور اختلاف کرنے سے قاصر ہوں اور الجھ گیا ہوں کہ اس مسئلے پر کیا کہوں۔میں زندگی کو دیکھتا ہوں تو امید افزا ہوتا ہوں تو وہیں شدید بیماری اور درد سے پریشان لوگوں کو دیکھتا ہوں تو خوفزدہ بھی ہوتا ہوں۔ کاش میں اس مسئلے پر اپنی کوئی رائے دے پاتا۔ آج کا کالم میں اپنے اس شعر سے ختم کرتا ہوں کہ:

اے زندگی تو ہی بتا، تجھ سے سوال ہے

ہے آرزو تو کیوں مرا،جینا محال  ہے

Leave a Reply