ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے انگلش ڈیفنس لیگ نے برطانیہ کی سڑکوں پر افراتفری پھیلا رکھی ہے۔ ٹومی روبن سن کی طرف سے قائم کیا گیا، انتہائی دائیں بازو کا گروپ ایک آواز اور اکثر پر تشدد مخالف رہا ہے جسے وہ برطانیہ کی اسلامیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگرچہ یہ حالیہ برسوں میں اس کی قوت میں کمی آئی ہے لیکن یہ اپنے مظاہروں کے ساتھ پر امن کمیونٹیز کے لیے بدستور بد حال ہے۔ جیسا کہ پچھلے کچھ دنوں میں ساؤتھ پورٹ، لندن، ہارٹل پول اور مانچسٹر میں دیکھا گیا۔پچھلے دنوں برطانیہ کو پر تشدد فسادات کی راتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پولیس نے ساؤتھ پورٹ سانحے کے قتل کے الزام میں ایک نوجوان کے بارے میں غلط معلومات کے بعد ای ڈی ایل پر تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔اس کے بعد ای ڈی ایل کے غنڈوں نے پولیس کی گاڑیوں کو نزر آتش کیا، شیشے کی بوتلیں پھینکیں اور پناہ گزین، مہاجر اور اسلام مخالف نعرے لگائے۔
سب سے بڑا مظاہرہ لندن میں “Enough is Enough” کے احتجاج میں ہوا۔ جہاں لگ بھگ سو سے زیادہ ٹھگوں کو گرفتار کیا گیا۔ فسادی، انگلش ڈیفنس لیگ کے بانی ٹومی رابنسن کے نام کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور بوٹ بند کرو کے نعرے لگائے۔بوٹ بند کرو سے ان کا اشارہ ان پناہ گزین کی طرف تھا جو فرانس سے کشتیوں پر سوار ہو کر غیر قانونی طریقے سے برطانیہ پہنچ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پچھلے کئی برسوں سے ان پناہ گزینوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ جس کہ ذمہ دار وہ نا اہل سیاستدان ہیں جو اس معاملے کا حل نکالنے کی بجائے اس پر اپنی سیاسی دکان کو چمکا رہے ہیں۔
دراصل ای ڈی ایل کا حالیہ دنوں میں سرگرمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ساؤتھ پورٹ میں متاثرین چھ سالہ بیبی کنگ،سات سالہ ایلسی ڈاٹ، اور نو سالہ ایلس ڈاٹ ڈیسلو ایگوئیر کے لیے پر امن احتجاج کے بالکل برعکس، اسلام مخالف نعرے لگاتے ہوئے مشتعل ہجوم نے ساؤتھ پورٹ میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا۔ جس کے قریب ہی تین چھوٹی لڑکیاں ماری گئیں تھیں۔مسجد پر حملے سے یہاں بھی ای ڈی ایل کی اسلام دشمنی کا ثبوت پایا گیا۔انگلش ڈیفنس لیگ ایک برطانوی دائیں بازو کی سیاسی تحریک ہے جو 2009میں قائم ہوئی تھی۔ یہ تنظیم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے متنازعہ نظریات اور احتجاجی مظاہروں کے لیے مشہور ہے۔ ای ڈی ایل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی انتہا پسندی اور شریعت قانون کے خلاف ہیں۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ کہ یہ تنظیم نسل پرستی اور اسلاموفوبیا (مذہب اسلام یا عام طور پر مسلمانوں کے خلاف خوف، تعصب یا نفرت)کی حامی ہے۔
ای ڈی ایل ایک انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ہے جو اپنے اسلاموفوبیا کے لیے مشہور ہے۔ یہ اسلام کو ایک قدیم مذہب کے طور پر دیکھتا ہے جو انگلستان میں زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا لیکن ایک غیر نسل پرست گروہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس کے وجود کے دوران متعدد اراکین واضح طور پر نسل پرستانہ تبصرے کرتے ہیں۔ ای ڈی ایل کے یہ دعویٰ کرنے کے باوجود کہ یہ سفید فام بالادستی کی وکالت کرنے والی نسل پرست تنظیم نہیں ہے۔ تاہم اس گروپ کی تحقیقات سے کچھ ارکان کا پتہ چلا ہے جو اکثر جنوبی ایشیائی یا عربی پس منظر والے لوگوں کے بارے میں توہین آمیز گالیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ احتجاج کے لیے پر امن اور غیر متشدد ذرائع استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم رپو رٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے ارکان ملک بھر میں تشدد مظاہروں کے لیے ذمہ دار ہیں۔
ای ڈی ایل کے نظریات اور مظاہرے،برطانوی معاشرے میں تقسیم اور تناؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی تحریک سے مختلف کمیونٹیز کے درمیان اعتماد کی کمی پیدا ہوتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ انگلش ڈیفنس لیگ کے وجود اور اس کے اقدامات نے برطانوی معاشرے میں مختلف تنازعات اور مسائل کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ ای ڈی ایل اپنے آپ کو ایک محب وطن تنظیم کے طور پر پیش کرتی ہے، لیکن اس کی سرگرمیاں اور نظریات اکثر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ برطانیہ میں مختلف سیاسی، سماجی اور قانونی ادارے ای ڈی ایل کے اقدامات کو قریب سے مانیٹر کرتے ہیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا ئے۔
انگلش ڈیفنس لیگ کا بانی ٹومی روبنسن جس کا اصل نام اسٹیفن یاکسلی لینن ہے اور جس نے 2009 میں کیون کارول کے ساتھ مل کر لوٹن کے مسلم انتہاپسندوں کے فوجیوں کے مارچنگ کے احتجاج کے خلاف انگلش ڈیفنس لیگ کی بنیاد ڈالی تھی۔ تیس سالہ ٹومی جو کے لوٹن کا رہنے والا ہے اور وہ لوٹن میں اپنی tanning (جہاں زیادہ تر عورتیں اپنے جسم کو گندمی کرواتی ہیں)کی دکان چلاتا تھا۔انگلش ڈیفنس لیگ کی بنیاد اس بات پر پڑی تھی کہ چند سال قبل مسلم انتہا پسندوں نے لوٹن میں فوجیوں کے مارچ کے دوران احتجاج کیا کرتے تھے۔ انگلش ڈیفنس لیگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے لگ بھگ 25000سے 35000ہزار حقیقی حامی ہیں اور ان کے تنظیم کی مقبولیت بڑھنے کے بعد ان کا مساجد پر حملے بھی بڑھ گیے ہیں۔ ان کے مظاہرے اکثر تشدد، ہنگامہ اور فاشسٹ تنظیم کی جوابی مظاہرے کی وجہ سے ہنگامے کی نظر ہوجاتا ہے اور اس میں پولیس کو کافی لوگوں کو گرفتار کرنا پڑتا ہے۔
انگلش ڈیفنس لیگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس نسل کا ایک مقبول ترین تحریک ہے جس نے پولیس کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور اس پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے سیاست دانوں میں کوئی سیا سی ر ائے نہیں بن پا رہی ہے۔ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انگلش ڈیفنس لیگ کے مظاہرے کا اصل مقصد بنیاد پرست اسلام کے خلاف ہے لیکن ان کایہ بھی کہنا ہے کہ اس کے حامی ان باتوں سے بھی ناراض ہیں کہ برطانیہ میں دوسرے ملکوں کے لوگوں کی غیر قانونی طور پر ہجرت ہورہی ہے اور حکومت اس مسئلے پر کچھ خاطر خواہ قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔
ساؤتھ پورٹ واقعے میں ملوث سترہ سالہ ایکسل روداکو بانا پر چاقو کے حملوں کے الزام میں قتل کا الزام عائد کیا گیا۔ اس پر آٹھ بچوں اور زخمی ہونے والے دو بالغوں کے لیے قتل کی کوشش کے دس الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ روداکوبانا برطانیہ میں رواندا کے والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا اور حملے کے مقام کے قریب رہتا تھا۔ پہلے تو حملہ آور لڑکے کی شناخت اٹھارہ سال کم ہونے کی وجہ چھپائی گئی تاہم جج کے آرڈر کے بعد لڑکے کا نام اور عمر کی تفصیل کو جاری کر دیا گیا۔جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ای ڈی ایل نے غلط طور پر ملزم کو ایک مسلم پناہ گزین بتا کر مساجد اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ رودا عیسائی مذہب کے ماننے والے والدین کا بیٹا ہے۔ تو پھر انگلش ڈیفنس لیگ مختلف شہروں میں مساجد کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ظاہر ہے مقصد ای ڈی ایل کا اسلام کو نشانہ بنانا ہے اور وہ برطانیہ کی آبرو اور عزت کو خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔
برطانیہ کی مسلم کونسل نے تمام مساجد پر زور دیا کہ وہ عام نماز اور نماز جمعہ کے دوران اپنے حفاظتی پروٹوکول پر نظر ثانی کریں اور ان کو مضبوط کریں۔ وہیں برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر نے ایک نیوز کانفرنس میں تشدد کی مذمت کی اور اسے دائیں بازو کی نفرت پر مورد الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سوچی سمجھی چال ہے اور یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے، وزیراعظم نے مزید کہا، یہ کوئی احتجاج نہیں ہے بلکہ یہ چند افراد کا ایک گروپ ہے جو بالکل تشدد پر تلے ہوئے ہیں۔
انگلش ڈیفنس لیگ کی غنڈہ گردی اور اسلام دشمنی سے برطانیہ کے پر امن فضا میں کافی تناؤ پایا جارہا ہے۔ حکومت اور پولیس ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ ای ڈی ایل کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے نہ دیا جائے لیکن ای ڈی ایل اپنے جھوٹے پروپگنڈے کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اس نازک گھڑی میں مسلمانوں کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا اور ہمیں مل جل کران لوگوں کی مخالفت کرنی ہوگی جو خوف اور نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔