ذی الحج اسلامی کیلنڈر کا ایک اہم مہینہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان آخری اسلامی مہینے ذوالحجتہ کی دس تاریخ کو عید الا ضحی مناتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی لاکھوں خوش نصیب الحمداللہ حج کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں جذبہ قربانی سے سرشار کروڑوں مسلمان اپنے اپنے طور پر جانوروں کی قربانی کر کے اللہ سے اپنی محبت کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ جس سے مسلمانوں میں اللہ سے قربت کا احساس ہو تا ہے اور وہ اللہ کی اس ہدایت کو مرتے دم تک قائم و دائم رکھتا ہے۔ ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8سے 12تاریخ کو دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ پہنچ کر ایک مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں جسے حج کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حج زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ قرآن مقدس نے فرمایا ہے۔ ’وَاَذِن في النَّاس ِ بِا لَحّجِ یَا تُوکَ رِجَالاً وَ عَلی کُلّ ضَا مِرٍ یَاتِینَ مِن کُلّ ِ فَجٍِ عَمِیقٍ‘۔(سورۃ الحج:آیت 27)،اور لوگوں میں بلند آواز سے کا اعلان کیجیے، وہ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل اور پتلے دبلے اونٹ پرسوار ہو کر آئیں گے۔
حج اسلام کے 5ارکان میں سے سب سے آخری رکن ہے۔ ہر سال حج کی ابتدا 8ذوالحجہ سے شروع ہوتی ہے۔ تمام حاجی میقات سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جہاں وہ طواف کرتے ہیں۔ پھر منیٰ کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جہاں وہ یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن قیام کرتے ہیں۔ اسی دن کو یومِ عرفہ، یوم سعی، یوم حلق و قصر وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج کنکریاں پھینکنے کے لئے جمرہ عقبہ جاتے ہیں۔ پھر مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منٰی جا کر ایام تشریق گزارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج مکمل ہوتا ہے۔
ہجرت کے نویں سال میں حج فرض ہوا۔ حضرت محمد ﷺ نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجتہ الوداع کہا جا تا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے اس حج میں حج کے تمام ارکان کو درست کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: ’خذوا عنيمنا سککم‘۔ (اپنے ارکان حج مجھ سے لے لو)۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر جمرہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، اور آپ فرمارہے تھے: لوگو! مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید میں اس سال کے بعد آئندہ حج نہ کر سکوں۔ (سنن نسائی/کتاب مناسک الحج /حدیث:3064)۔ حضرت محمد ﷺ نے اسی حج کے دوران اپنا مشہور خطبہ حجتہ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔
حج کی پہلی شرط مسلمان ہونا ہے۔ غیر مسلموں پر حج فرض نہیں اور نہ ہی ان کے لئے مناسک حج ادا کرنا جائز ہے۔ دوسری شرط عقل ہے، پاگل مجنون پر حج فرض نہیں۔ تیسری شرط بلوغ ہے، نابالغ بچے پر حج فرض نہیں۔ چوتھی شرط آزادی ہے۔ غلام و باندی پر حج فرض نہیں۔ پانچویں شرط استطاعت ہے، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ حج محض ان افراد پر فرض ہے جو اس کی جسمانی و مالی استطاعت رکھتے ہوں (عورت ہے تو شرعی محرم بھی لازم ہے)۔
تمام مسلمان کی ایک خواہش ضرور ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک بار حج ضرور کرے۔ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ارکان حج بھی ہے۔ جیسے جیسے دنیا بھر میں مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو رہی اور سعودی حکومت کی سہولیات آسان ہو رہی ہے۔ حج کا سفر بھی اب بہت آسان ہوتا جارہا ہے۔ تاہم میرا اپنا تجربہ عمرہ کے حوالے سے یہ ہے کہ تمام سہولت کے باوجود عمرہ اور حج کی ادائیگی ایک منفرد اور تھکاوٹ والی عبادت ہے۔ جو انسان اللہ کی محبت اور جذبہ سے ادا کر لیتا ہے اور اس عبادت کو سوچ کر ذہن زندگی کی آسائشوں سے لاپرواہ ہو جاتاہے۔
مجھے اس بات سے دلی خوشی ہوتی ہے جب کوئی حج کم عمری میں ادا کرتا ہے۔ خاص کر انڈونیشا، ملیشیا اور ترکی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں کم عمر میں حج کرنا احسن سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس کے بر عکس انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں سے زیادہ تر لوگ حج کی ادائیگی کا ارادہ اس وقت کرتے ہیں جب وہ عمر کے آخری پڑاؤ پر ہوتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔ ایک تو معاشی طور پر اس قابل نہ ہونا۔ دوسرا روایتی طور پر یہ سوچ کر انتظار کرنا کہ جب تمام چیزوں سے فارغ ہوجائیں گے تب حج کے لیے روانہ ہوں گے۔ جس کی وجہ سے عام طور جسمانی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں اور کافی مشکلات و دشواریوں سے حج کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ تاہم دھیرے دھیرے یہ روایت اب تبدیل ہورہی ہے اور نوجوانوں میں حج کے فرائض پورا کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
عید الا ضحی رب کریم کے پیارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد ہے جب آپ نے مسلسل تین راتیں عالم خواب میں قربانی کا حکم پا کر اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر اللہ کے حکم سے چھری رکھ دی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو جنت سے دنبہ لے جانے کا حکم دیا اور اسے حضرت علیہ السلام کی جگہ ذبح کرایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سنت ابراہیم کو ہمیشہ کے لیے قائم فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ’ہم نے قربانی ہر امت کے لیے مقرر فرمائی تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسم (پاک) سے ان بے زبان جانوروں کو ذبح کرتے وقت جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ ’اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں۔ وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تمہارے دلوں میں خوفِ الٰہی اور تقویٰ موجود ہے۔
قربانی کی ادائیگی کے لیے چار شرائط کا ہونا لازمی ہے۔ مسلمان ہونا، آزاد ہونا، مقیم ہونا اور خوشحال ہونا۔ اگر کسی نے قربانی کی جگہ زندہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کر دی تو یہ جائز نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ احمق لوگوں نے اپنے نظریات کو پیش کرتے ہوئے اوٹ پٹانگ باتیں کہی ہیں جو مذہبی نقطہ نگاہ سے غلط ہے۔ مثلاً ایک پوسٹ میں یہ کہا گہا کہ’قربانی کے ساتھ ساتھ چیریٹی بھی کریں‘۔ اسی طرح کی ایک اور پوسٹ قربانی کے حوالے سے نظر سے گزری کہ ’انسان اپنے اندر کا جانور مار کر قربانی کریں‘۔ مجھے ایسی پوسٹ دیکھ کر حیرانی کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔ کیوں کہ ان لوگوں نے اپنے ذاتی نظریات کو مذہب سے جوڑ کر ایک غلط کام کیا ہے۔ بات یہیں تک نہیں تھی بلکہ ان لوگوں کے غیر ذمّہ دارانہ بیان سے غیر مسلموں نے ان کی خوب واہ واہ کی جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ قربانی کو چیریٹی سے جوڑنا ایک نہایت شرمناک بات ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے حُکم کی نافرمانی ہوتی ہے جو کہ ایک گناہ ہے۔ میں ایسے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی جھوٹی شہرت اور نام نمود کے لئے ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کر کے فتنہ نہ پھیلائیں اور مذہبِ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اللہ تعالیٰ کو قربانی بہت محبوب ہے۔ بشرطیکہ وہ اخلاص، تقویٰ اور اللہ کی رضا کے لیے کی جائے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: لَن یِّنالَ اللہ لُحُو مُہا وَلَا دِ مآ و ُ ھَا وَ لَکن یَّنا لُہ التّقوی مِنکُم (سورۃ الحج:آیت 37)۔ اللہ تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ تمہاری طرف سے تقویٰ (پرہیز گاری) اُس تک پہنچتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ابن آدم نے قربانی کے دن (عید الاضحی) کوئی عمل ایسا نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور بے شک وہ (قربانی کا جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھُروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قبول کرلیا جاتا ہے۔ پس خوش دلی سے قربانی کیا کرو” (ترمذی: ابن ماجہ)۔
قربانی محض گوشت کھانے یا رسم ادا کرنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ قربانی اللہ کی رضا کے لیے اپنی پسندیدہ چیز کو پیش کرنے کی سنتِ ابراہیمی ہے۔ اور اللہ کو وہی قربانی پیاری ہے جو دل کے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ کی جائے۔ میں آپ تمام لوگوں کو عیدا لا ضحیٰ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ پورے عالم میں مسلمانوں کو محفوظ رکھے اور پوری دنیا پر اللہ رحم فرمائے۔