You are currently viewing آکسفورڈ میں ممتا نے، ممتا نچھاورکی

آکسفورڈ میں ممتا نے، ممتا نچھاورکی

آکسفورڈ یونیورسیٹی سے ” اِن کنورسیشن وِتھ چیف منسٹر آف ویسٹ بنگال، ممتا بنرجی” پروگرام کے حوالے سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا اور شرکت کی درخواست کی گئی۔اسی دوران کلکتہ سے چند کرم فرماؤں نے اطلاع دی کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی 27مارچ کو برطانیہ کی معروف یونیورسیٹی آکسفورڈ کی دعوت پر تشریف لے جارہی ہیں۔ اگر موقع ملے تو آپ ضرور اس پروگرام میں شرکت کریں اور ان سے ملاقات کریں۔

یوں تو لندن کی مصروف زندگی سے وقت نکالنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ایک تو مسلسل کام کاج کا دباؤ اور دوسرے خود لکھنے پڑھنے کا عمل ہوتا ہے۔ پھر بھی میں نے ارادہ کرلیا کہ میں اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے آکسفورڈ جاؤں گا۔ اسی دوران لندن کے معروف ہیتھرو ائیر پورٹ کے بجلی ٹرانسفرمر میں آگ لگ جانے سے ایک دن ائیر پورٹ کو بند کردینا پڑا۔ بحالتِ مجبوری ممتا بنرجی کو بھی اپنا سفر دو دن کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ تاہم جوں ہی ہیتھرو ائیر پورٹ کی سروس  بحال ہوئی ممتا بنرجی بھی اپنا سامان اور ٹیم کو لے کر کلکتہ کے نیتا جی سبھاش چندر بوس ائیر پورٹ پہنچ گئی اور آخر کا ر دو دن کی تاخیرکے بعد ممتا بنرجی لندن پہنچ ہی گئیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعہ ان کی دیگر مصروفیات کا علم ہوتا رہا۔ جن میں انڈین ہائی کمیشن لندن اور صنعت کاروں کے ساتھ تجارتی  میٹنگ اہم تھیں۔ میں بھی ممتا بنرجی کی مصروفیات کو سوشل میڈیا کے ذریعہ جانتا رہا اور یہ بھی دیکھتا رہا کہ وہ لندن میں بھی اپنی روایتی ہوائی چپل کے سہارے ہی یہاں کی سردی کو مات دیتی رہی۔ظاہر ہے ممتا بنرجی نے عام لوگوں کے لیے عام لیڈر بن کر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے تو انہیں ان باتوں کا خیال رکھنا ہی ہوگا۔ تاہم اگر آپ مجھ سے کہیں گے کہ کیا آپ لندن میں ہوائی چپل پہن کر باہر نکل سکتے ہیں، تو ہاں یہ ممکن ہے، جب لندن میں درجہ حرارت 30بمشکل پہنچتا ہے تو میں ہمت کر کے ہوائی چپل پہن لیتا ہوں۔ لیکن جب درجہ حرارت 8یا 10یا اور کم ہو تومیں موٹے موٹے موزوں میں پیر ڈال کر جوتے پہن کر ہی باہر نکلنے کی جرات کرتا ہوں۔ تاہم ممتا بنرجی نے ہوائی چپل پہن کر نہ صرف مجھے دنگ کر دیا بلکہ لندن کی سردی کو بھی مات دے دی اور اپنے عام لباس یعنی سفیدساڑی والی ممتا بنرجی کے وقار کو قائم رکھا۔بلکہ ہمیں بھی کچھ دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ممتا واقعی عام لوگوں کی عام لیڈر ہیں جو اپنے ملک میں جس طرح زندگی گزارتی ہیں اسی طرح بیرون ممالک میں بھی اسی طرح لباس زیب تن کرکے نکل پڑتی ہیں۔اب چاہے لندن کی سخت سردی ہو یا کلکتہ کی موسلا دھار بارش، ممتا بنرجی کی ضد اور سادگی کے سامنے موسم نے بھی گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔

 سوشل میڈیا پر ممتا بنرجی کے چاہنے والے اپنے اپنے طور پر ان کی لندن میٹنگ وغیرہ کی خبریں پوسٹ کرتے رہے اور ہم گاہے بگاہے ان کی باتوں اور میٹنگ سے باخبر ہوتے رہے اور دیکھتے دیکھتے 27مارچ آ دھمکا۔ ہم نے تو روزہ رکھا ہوا تھا اور ہمارے پڑوسی غلام دودھیا نے بھی ہمارے ساتھ آکسفورڈ جانے کی گزارش کی اور ہم نے انہیں بھی اپنے ساتھ لے لیا۔

دوپہر ڈھائی بجے ہم غلام دودھیا کے ساتھ اپنی گاڑی میں سوار ہو کر آکسفورڈ کے لیے روانہ ہوگئے۔ گاڑی کی سیٹ نیو، (جو راستہ دکھانے کا میپ ہوتا ہے) اس پر کیلوگ کالج کا پتہ ڈالنے کے بعد سیٹ نیو نے آکسفورڈ دو گھنٹے دس منٹ میں پہنچنے کی اطلاع دی۔ لیکن ایم 25موٹر وے پر کچھ ٹریفک ہونے کی وجہ سے ہمیں آکسفورڈ پہنچنے میں لگ بھگ تین گھنٹے لگ گئے۔آخر کار تین گھنٹے کے سفر کے بعدہم آکسفورڈ یونیورسیٹی کے کیلوگ کالج شام پانچ بجے پہنچ گئے۔ جہاں ” اِن کنورسیشن وتھ چیف منسٹر آف ویسٹ بنگال، ممتا بنرجی” کا ساڑھے پانچ بجے سے پروگرام ہونا طے تھا۔تھوڑی دیر میں ہماراسیکیورٹی چیک ہوا اور اس کے بعد ہم کیلوگ کالج کے اندر داخل ہوگئے۔

ہال میں جانے سے قبل جب ایک کمرے کے پاس سے میرا گزر ہوا تو اچانک میری نگاہ ایک خاتون پر پڑی جو ممتا بنرجی تھی۔ ان کے ساتھ سیکیورٹی کے چند جوان انہیں گھیرے ہوئے تھے اور پاس ہی کالج کے صدر پروفیسر جوناتھن مشی، ممتا بنرجی سے گفتگو کر رہے تھے۔ میں  عملے کے بیچ سے گزرتے ہوئے ممتا بنرجی کے قریب چلا گیا اور اپنے افسانے کی بنگلہ اور انگریزی کتاب انہیں پیش کر دی۔ اس سے قبل ممتا بنرجی نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ہم نے اپنا مختصر تعارف کرواتے ہوئے ان کے لندن اور آکسفورڈ سفر پر بنگلہ زبان میں مبارک باد پیش کی۔ممتا بنرجی مجھ سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے میری کتابوں کو قبول کیا اور شکریہ ادا کیا۔تھوڑی دیر بعد ہم ہال جانے کے لیے چل پڑے تو ہماری نظر مشہور کرکٹرسورو گنگولی پر پڑی۔ یوں توسورو گنگولی سے میری براہ راست ملاقات مشہور پاکستانی کرکٹر یاسر عرفات کی شادی  کے موقع پرلندن میں ہو چکی تھی۔ میں نے سورو گنگولی سے حال چال پوچھا اور انہیں بھی اپنی دو کتابیں بطور تحفہ پیش کیں۔اس کے بعد ترنمول کانگریس پارٹی کے سنئیر لیڈر کنال گھوش سے بھی ملاقات ہوئی  اور حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیال ہوا۔ انہوں نے بھی میری دو کتابیں وصول کرتے ہوئے اپنی خوشی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

 اس کے بعد کیلوگ کالج کی خوبصورت ہری گھاس کے لان کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم ہال پہنچے۔ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اسٹیج پر ممتا بنرجی کے ساتھ کیلوگ کالج کے صدر پروفیسر جوناتھن مشی اور لارڈ بلیموریا، جو کیلوگ کے بائنم ٹیوڈر فیلو اور ایک معروف کاروباری، سیاست دان اور مخیر موجود تھے، انہوں نے اسٹیج پر ممتا بنرجی کا استقبال کیا اور ممتا بنرجی سے تقریر کرنے کی گزارش کی۔تقریب میں لگ بھگ دو سو سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی اور جو لوگ تقریب میں جگہ نہ ملنے پر شرکت نہ کر سکے انہوں نے کالج کے دوسرے سیمنار روم میں لائیو اسٹریم سے دیکھا۔

وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے شام کا آغاز سماجی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے موضوعات پر مبنی ریمارکس کے ساتھ کیا۔ انہوں نے مغربی بنگال میں پسماندہ کمیونیٹیز کی ترقی اور خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے اپنی حکومت کے اقدامات کے بارے میں تفصیلات شئیر کیں۔انہوں نے جن پروگراموں پر روشنی ڈالی ان میں کنیا شری پرکالپا، اسکول جانے والی لڑکیوں کے لیے ایک نقد ترغیبی اسکیم اور لکشمی بھنڈار اسکیم،جو خواتین کو نقد رقم فراہم کرتا ہے، جس سے لوگوں کی زندگیوں پر تبدیلی کااثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا مشہور نعرہ ماں، ماٹی، مانس  بھی  دہرایا۔

سوالات کے دوران  تھوڑا رخنہ ڈالا  گیا۔ میں نے دیکھا کہ مغربی بنگال میں ریپ، قتل اور دھاندلی کے خلاف  نعرے لگاتے ہوئے چند نوجوانوں نے احتجاج کیا۔ یہ لوگ شاید بائیں محاذ کے حامی لگ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ اور لوگ جو بی جے پی کے حامی تھے انہوں نے بھی ممتا بنرجی کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ان کی باتوں کو جھوٹ بتا نے کی کوشش کی۔تاہم سامعین کی اکثریت نے وزیراعلیٰ کو بلا تعطل بولنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور سیکیورٹی گارڈ نے ان لوگوں کو ہال سے باہر نکال دیا۔

 ممتا بنرجی نے خوش اسلوبی اور صبر و تحمل سے اپنی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان لوگوں سے یہ بھی کہا کہ یہ اپنی پارٹی کو کہیں کہ وہ میرا سامنا کریں اور اپنی بات کو سچ ثابت کریں۔ممتا بنرجی نے قومی اتحاد کی اہمیت، خواتین کو با اختیار بنانے اور مغربی بنگال میں اپنی حکومت کی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھا اور ان کی باتوں کو سن کر مجھے ایسامحسوس ہوا کہ “آکسفورڈ میں ممتا نے ممتا نچھاورکی”ہے۔

شام کے ساڑھے چھ بجے پروگرام کا اختتام ہوا اور ممتا بنرجی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ایک پرائیوٹ بس پر سوار ہو کر لندن روانہ ہوگئیں۔میں بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر آکسفورڈ کی سرد شام سے نکل کر لندن کی طرف چل پڑااور سوچنے لگا کہ زندگی میں چیلنجز ناگزیر ہیں اور ہم ان تک کیسے پہنچتے ہیں، یہ ہمارے آگے کے راستے کی وضاحت کرتا ہے۔ لیکن ہم ان خوبیوں کو کیسے پیدا کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسی ذہنیت کو اپنانے سے شروع ہوتا ہے جو چیلنجوں کو مواقع میں بدل دیتا ہے اور آگے بڑھتے رہنے کا مضبوط عزم پیدا کرتا ہے۔ چاہے رکاوٹیں ہی کیوں نہ ہوں۔ممتا بنرجی شاید اسی مضبوط عزم کے ساتھ لندن اور آکسفورڈ کا کامیاب سفر مکمل کر کے کلکتہ لوٹی ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ اپنی ممتا لوگوں پر نچھاور کرتی رہے گی۔

Leave a Reply