You are currently viewing آخری سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ اور ان کی عیسائی تدفین

آخری سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ اور ان کی عیسائی تدفین

یہ خبر دلچسپ بھی ہے اوراہم بھی کہ کیا سکھ سلطنت کے آخری شہزادے کے جسدخاکی کو قبر سے نکال کر پنجاب بھیج دیا جائے۔ ان کی قبر انگلینڈ کے دیہی علاقے میں پائی گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک سکھ چیریٹی نے کئی سال قبل کیا تھا۔

 مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ایک غیر معمولی کہانی ہے جنہیں بہت کم عمری میں شہزادہ بنا دیا گیا تھا۔ ان کی پیدائیش لاہور میں 1838میں ہوئی تھی اور ان کا تعلق ایک بہت ہی طاقت ور حکمراں خاندان سے تھا۔ان کے والد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال بہت جلد ہوگیا تھا جس کہ بعد پنجاب میں بد امنی پھیل گئی تھی۔ ان کے والد کے انتقال کے بعدپانچ سال کی عمر میں اس معصوم بچے کو سکھ سلطنت کے تخت پر بٹھا یا گیا۔حالانکہ حقیقت میں سلطنت کی باگ ڈور ان کی ماں اور چچا کے ہاتھوں میں تھی جو کہ اس کام کو بخوبی انجام دے رہے تھے۔اس دوران ریاست میں مزید بدامنی پھیل گئی اور جب 1845میں اینگلو سکھ جنگ کا ٓآغاز ہوا تو برٹش حکومت کو ریاست پر قبضہ کرنے کا ایک مناسب موقع مل گیا۔1849میں برٹش حکومت نے پنجاب پر  مکمل قبضہ کر لیا اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کو تخت سے اتار دیا گیا۔اور اس طرح سے سکھوں کے آخری حکمراں کا خاتمہ ہوگیا۔

اس نوجوان شہزادے کو اس کی ماں مہارانی جند کور سے الگ کردیا گیا اور انہیں اپنے آبائی وطن لاہور سے قید کر کے فتح گڑھ لے جایا گیا جو کہ اب ہندوستان کے اتر پردیش صوبہ میں ہے۔یہ جگہ برٹش افسروں کے بچوں اور بیویوں کے قیام کے لئے مخصوص تھی جو کہ ہندوستان کے اندر تقریبا ً برٹش تصفیہ تھا۔ دلیپ سنگھ کو فوجی سرجن جون اسپنسر لوگن اور ان کی بیوی لیڈی لوگن کی نگرانی میں رکھا گیا اور انہیں ایک بائبل دی گئی تھی۔انہیں پورے طور پر انگریزی ماحول میں رکھا گیا تھا اور ان کو ان کی زبان، ثقافت،اورمذہب سے لاتعلق کر دیا گیا۔ آخر کار  نوجوان مہاراجہ نے عیسائی مذہب اور ثقافت اختیار کر لی۔

مئی 1854میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کو انگلینڈلا یاگیا اور ملکہ وکٹوریہ سے ان کا تعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد سے ہی ملکہ وکٹوریہ مہارا جہ دلیپ سنگھ کو پسند کرنے لگی۔ حالانکہ یہ ایک غیر ملکی شہزادہ تھے لیکن ملکہ وکٹوریہ انہیں اپنے پسندیدہ بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔ ملکہ وکٹوریہ انہیں اپنی تمام شاہی تقریبات میں دعوت دیتی اور یہاں تک کہ دلیپ سنگھ پرنس البرٹ اور ملکہ وکٹوریہ کے ساتھ چھٹیاں بھی گزارنے جاتے تھے۔ان کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ انگلینڈ کے تمام لارڈ اور لیڈیزاپنی پارٹیوں میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کو بلانا اہم سمجھنے لگے۔ ملکہ وکٹوریہ نے اس نوجوان شہزادے کی تصویر خاص کر معروف پینٹر ونٹر ہالٹر سے بنوا کر رائل کلکشن آف اسبورن ہاؤس میں لگوا ئی جو کہ  آئل آف وایٹ میں واقع ہے۔

ایک دہائی تک مہاراجہ دلیپ سنگھ نے شاہانہ طرز زندگی گزار ی۔ وہ شاہی خاندان کے ساتھ یورپ کے مختلف مقام پر شکار اور چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ان کی نجی زندگی ایک اعلیٰ درجہ کی انگریزی  روایات سے بھری ہوئی تھی جبکہ عوامی سطح پر وہ اپنے آپ کو ہندوستانی شہزادہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔تاہم تیرہ سال تک اپنی ماں سے الگ رہنے کے بعد دلیپ سنگھ کو پھر اپنی ماں سے ملایا گیا۔ اب ان کی ماں ایک ضعیف او کمزور عورت تھی جو کہ اب انگریزوں کے لئے ایک خطرناک عورت شمار نہیں کی جاتی تھی۔مہاراجہ دلیپ سنگھ کی ماں نے جب انگلینڈ آکر اپنے بیٹے سے ملاقات کی تو انہوں نے اپنے بیٹے کو اس کھوئی ہوئی سلطنت اور سکھ مذہب کی یاد دلائی۔ ماں کے انتقال کے دو سال بعد مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بمبا مولر سے شادی کر لی جن کی پیدائش قاہرہ میں ہوئی تھی اور وہ ایک مضبوط عیسائی اقدار کی حامل تھیں۔ان کے چھ  بچے ہوئے۔ شادی کے بعد انہیں برٹش حکومت نے سفک کے دیہی علاقہ میں بسایا تھا۔لیکن 1870میں مہاراجہ کو مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔صرف برٹش حکومت کی پینشن پر چھ بچوں کی پرورش کرنا اور شاہانہ طرز زندگی کو جاری رکھنا دلیپ سنگھ کے لئے دشوار  تھا۔اس کا انجام یہ ہوا کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ پر بھاری قرض کا بوجھ بڑھ گیا۔آخر کار مہاراجہ دلیپ سنگھ نے برٹش حکومت سے اپنی جائداد اور زمین کے متعلق سوالات پوچھنے شروع کر دئیے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پنجاب پر قبضہ ایک خفیہ طریقہ سے کیا گیا تھا جو کہ غلط تھا۔ انہوں نے برٹش حکومت کو بے شمار خطوط لکھے اور ہندوستان کی زمین کے قبضہ کے عوض میں معاوضہ  بھی مانگا۔ لیکن ان کو اس میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔

31 مارچ1886میں دلیپ سنگھ نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھا تے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اور ان کا خاندان اب ہندوستان  اور اپنے سکھ مذہب کو  دوبارہ اپنا نے اور اپنی زمین کو دوبارہ حاصل کر نے کے لئے روانہ ہورہے ہیں۔اس اعلان کے بعد برٹش حکومت ممکن نے ممکنہ  بغاوت کے پیش نظرایڈن سے ہندوستان جانے والے جہاز سے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو حراست میں لے لیا اور انہیں گھر میں نظر بند کردیا۔ان کے خاندان کے باقی افراد کو انگلینڈ واپس بھیج دیا گیا۔کچھ عرصے بعددلیپ سنگھ نے یقیناً سکھ مذہب قبول کر لیا تھا لیکن کئی برسوں تک مایوس کن زندگی گزارنے کے بعد اور برٹش حکومت کی خفیہ ایجنسی کی نگرانی کی وجہ سے انہوں نے ہندوستان لوٹنے کی ہمت کھو دی تھی۔ آخر کار اکتوبر 1893میں دلیپ سنگھ تنگ دستی کی حالت میں پیرس میں انتقال کر گئے۔

معروف صحافی اور مصنف کرسٹی کمپبیل نے اپنی کتاب” دی مہاراجہ بکس” میں لکھا ہے کہ اس وقت کے خارجہ سکریٹری نے  ہدایت دی تھی کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے جسد خاکی کو حنوط شدہ ایک تابوت میں رکھ کر برطانیہ لایا جائے۔ ان کو بعد میں عیسائی رسم سے سینٹ انڈریو اور سینٹ پیٹرک چرچ میں دفن کیا گیا۔ مسٹر کمپبیل مزید لکھتے ہیں کہ یہ مناسب ہے کہ دلیپ سنگھ کے جسد خاکی کو کھود کر نکالا جائے۔  ان کو کبھی بھی انگلینڈ میں عیسائی رسم سے دفن نہیں کرنا چاہئے تھا۔لیکن سکھوں میں اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ امن دیپ سنگھ مدرا کہتے ہیں کہ ’وہ اور ان کی چیریٹی یو کے پنجاب ہیریٹج ایسو سی ایشن اس بات کی حمایت نہیں کرے گی۔

 دلیپ سنگھ نے اپنی آخری دستاویز میں یہ بات صاف طور پر لکھی ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ’ان کو وہیں دفنایا جائے جہاں ان کی موت ہوئی ہے‘۔لیکن کچھ سکھوں کا کہنا ہے کہ ان کی آخری رسومات وہیں ہونی چاہئے جہاں کہ وہ آخری سکھ بادشاہ تھے۔ سینٹ انڈریو اور سینٹ پیٹرک چرچ کے پادری پال ٹیم نے کہا کہ ’دلیپ سنگھ کو یہیں چھوڑ دینا چاہئے جہاں وہ دفن ہیں‘۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے  کہ کیوں مہاراجہ دلیپ سنگھ کو عیسائی رسم کے تحت دفنایا گیا تھا۔  جو لوگ اس سلسلے میں یہ مہم چلا رہے ہیں کہ ’ان کے جسد خاکی کو قبر سے نکالا جائے،‘انہیں اپنی درخواست منسٹری آف جسٹس کو دینی ہوگی جو کہ مرُدوں کو قبر وں سے نکالنے کا کام دیکھتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے انہیں چرچ آف انگلینڈ کے سامنے بھی اپنی بات منوانی پڑے گی۔مہاراجہ دلیپ سنگھ سنٹنری ٹرسٹ کے ممبر جسوندر سنگھ ناگرا نے کہا کہ’ہم لوگ اس معاملے میں کبھی یہ قدم نہ اٹھاتے اگر ہمیں یہ علم ہوتا کہ ہم اس میں کامیاب ہوتے‘۔لیکن ان تمام باتوں سے ہٹ کر فی الحال سکھوں کے آخری مہاراجہ دلیپ سنگھ الویڈن میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

Leave a Reply